رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ

رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ

اس تحریر میں رسول اللہ کی سیرت طیبہ بہت ہی آسان انداز میں مختصر طور اس طرح بیان کی گئی ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد آپ ﷺ کی زندگی کا نقشہ آپ کے سامنے آجائے گا، لہذا آخر تکسنتے رہئے۔

سیرت طیبہ

۲۰ اپریل ۵۷۱ء  کو پیر کے دن مکہ مکرمہ میں  آپﷺ کی ولادت ہوئی۔عام طور پر آپ ﷺ کا یوم پیدائش ۱۲ ربیع الاول بتایا جاتا ہے، لیکن بعض محققین کے نزدیک ربیع الاول کی ۹ تاریخ تھی۔ دادا نے آپ کا نام محمد رکھا۔اور بعض روایتوں کے مطابق والدہ نے احمد نام رکھا،

والد ماجد کا نام عبداللہ، اور والدہ کا نام آمنہ تھا۔

آپ کے دادا کا نام عبد المطلب اور دادی کا نام فاطمہ تھا۔

آپ کے نانا کا نام وہب اور نانی کا برہ تھا۔

آپ کے دس چچا تھے ، ان میں سے حضرت عباس اور حضرت حمزہ نے اسلام قبول کیا۔

 اور چھ  پھوپھیاں تھیں، ان میں سے تین کا اسلام لانا نقل کیا گیا ہے

رسول اللہ کا خاندان والد کی طرف سے اس طرح ہے۔عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب  بن مرہ  بن کعب  بن لووی بن غالب  بن  فہر بن مالک(قریش)۔

والدہ کی طرف سے آپ کا خاندان کلاب پر جاکر مل جاتا ہے۔

آمنہ بنت وہب  بن عبدمناف بن زہرہ  بن کلاب۔

آپ ﷺ کی ولادت سے دو ماہ قبل ہی آپ ﷺ کے والد ماجد کی وفات ہوگئی تھی،  شام سے لوٹتے ہوئے مدینہ میں قیام کیا تھا، اور وہیں  ایک مہینے بیمار رہ کر پچیس سال کی عمر میں  وفات ہوگئی، آپ ﷺ کی ولادت کے بعد پہلے خود آپ ﷺ کی والدہ حضرت  آمنہ اور پھر ابولہب کی باندی حضرت  ثوبیہؓ نے دودھ پلایا، عرب کا دستور تھا کہ دیہات کی خواتین شہر آتیں اور معزز قبائل کے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے لے جاتیں، چنانچہ حضور ﷺ کو حضرت  حلیمہ سعدیہؓ اپنے ساتھ لے گئیں۔ دو سال کی عمر تک حضرت  حلیمہ سعدیہؓ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا اور آپ ﷺ کی وجہ سے ہونے والی برکتوں کو دیکھتے ہوئے حضرت  حلیمہ کی خواہش پر آپ ﷺ کو  مزید دو سال ان کے یہاں رکھا گیا، جب چار سال کے ہوئے تو  مکہ میں اپنی والدہ کی آغوش رحمت میں واپس  آگئے۔

حضرت  آمنہ  کا میکہ مدینہ میں تھا۔ وہ  آپ  ﷺ  اور اپنی وفادار باندی حضرت  اُم ایمن کے ساتھ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے مدینہ گئیں، اور واپسی میں "ابوا”کے مقام پر حضرت  آمنہ کی وفات ہوگئی۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک چھ سال تھی، یہاں سے اُم ایمن آپ ﷺ کو اپنے ساتھ لے کر مکہ واپس آئیں اور آپ ﷺ اپنے دادا حضرت  عبدالمطلب کی پرورش میں آگئے، عبد المطلب آپ ﷺ سے بہت محبت کرتے تھے، اور ان کا خاص خیال رکھتے تھے، حضرت  اُم ایمن نے ایک ماں کی طرح بھرپور شفقت و محبت کے ساتھ آپ ﷺ کی پرورش کی، آپ ﷺ کہتے تھے کہ یہ میری ماں ہیں، وہ آپ ﷺ سے بےحد محبت کرتی تھیں، جب عمر مبارک آٹھ سال کی ہوئی تو دادا کی بھی وفات ہوگئی۔ حضرت  ابوطالب آپ ﷺ کے سگے چچا  تھے ، آپ ﷺ ان کی پرورش میں آگئے۔

عرب کے عام دستور کے مطابق آپ ﷺ نے بچپن میں بھیڑ بکریاں بھی چرائی ہیں، جب آپ ﷺ کی عمر مبارک بارہ سال تھی، تو حضرت  ابوطالب کے ساتھ  شام کے تجارتی سفر میں گئے، لیکن بحیرہ راہب کے کہنے  پر آپ ﷺ کو راستے سے واپس بھیج دیا۔

  دوبارہ جب عمر مبارک ۲۵ سال کے قریب ہوئی تو حضرت  خدیجہ الکبریٰ کی خواہش پر ان کا مال لےکر آپ ﷺ نے  تجارت کے لئے شام کا سفر  فرمایا، حضرت  خدیجہ نے اپنے غلام مَیسرہ کو بھی آپ ﷺ کے ساتھ کردیا تھا، اس تجارت میں بہت نفع ہوا۔

رسول اللہ  کے اچھے اخلاق دیکھ کر حضرت خدیجہ ؓ نے آپ سے نکاح کر لیا، اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک ۲۵ سال تھی، حضرت  خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال تھی، حضرت  خدیجہ ؓ سے نکاح کے بعد آپ ﷺ محلہ بنو ہاشم سے حضرت  خدیجہ ؓ کے گھر میں  منتقل ہوگئے، حضرت  خدیجہ ؓ  کے پاس ایک غلام تھا ، زید بن حارثہ ، وہ انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں  دے  دیا، زید بن حارثہ آپ ﷺ کے اچھے اخلاق سے اتنے متاثر ہوئے کہ جب ان کے والد اور چچا لینے کے لئے آئے تو انہوں نے جانے سے  منع   کر دیا، اور آپ ﷺ کے ساتھ رہنا پسند کیا،  نبوت کے بعد بھی وہ آپ ﷺ کے محبوب صحابہ ؓ میں سے ہوئے۔

نبوت سے پہلے کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ کچھ لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں اس مقصد سے جمع ہوئے کہ سب مل کر ظالم کو ظلم سے روکنے کی کوشش کریں، اور مظلوم کی مدد کریں، اس معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں، آپ ﷺ  بھی اس معاہدہ  میں شریک ہوئے، آپ کو یہ معاہدہ اس قدر پسند تھا کہ آپ ﷺ نبوت کے بعد بھی فرماتے تھے کہ اگر اب بھی مجھے ایسے معاہدہ کی طرف دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔

جب عمر مبارک ۳۵ سال کی ہوئی، تو خانہ کعبہ میں بارش کی وجہ سے شگاف پڑ گیا ، اس وجہ سے کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر ہوئی، جب حجر اسود کو اپنی جگہ پر رکھنے کا موقع آیا تو مختلف قبائل کے درمیان کشمکش شروع ہوئی اور قتل و قتال کا اندیشہ پیدا ہوگیا، ایسے موقع پر مکہ کے ایک بزرگ "امیہ بن مغیرہ” نے تجویز پیش کی کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبہ  میں آئے، وہ حجر اسود کو اپنی جگہ پر رکھے، دوسرے دن  سب سے پہلے کعبہ میں آنے والی شخصیت آپ ﷺ  کی تھی، چنانچہ آپ ﷺ نے ایک چادر منگائی، اس میں پتھر رکھا، اور ہر ہر قبیلہ سے ایک ایک نمائندہ طلب کیا، اور ان سب سے کہا کہ وہ چادر کے کنارے پکڑ کر حجر اسود کو اس جگہ تک لے جائیں، جہاں اسے نصب کیا جانا ہے، پھر جب وہاں پہنچے تو اپنے دست مبارک سے پتھر کو اپنی جگہ پر نصب فرمادیا۔آپ کی اس سمجھداری سے  ایک  بڑا فتنہ دب گیا ۔ اور سب خوش بھی ہوگئے۔

نبوت  سے پہلے بھی آپ ﷺ نے کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی، اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جو گناہ کا ہو یا جو شرم و حیاء کے خلاف ہو،  نبوت سے پہلے آپ ﷺ کی خوش اخلاقی اور سچائی  کی وجہ سے لوگ آپ کو امیناور صادق کہا کرتے تھے۔

مکی زندگی

جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال کے قریب ہوئی، تو ایک خاص کیفیت یہ پیدا ہوئی کہ آپ ﷺ تنہائی  کو پسند  فرماتے، اور غار حرا  میں جاکر کئی دنوں کے لئے قیام فرماتے،  اور مسلسل غوروفکر میں مشغول رہتے اور کعبہ  کی طرف دیکھتے رہتے، حرا کی پہاڑی مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے، جس کی اونچائی تقریباﹰ دو ہزار فٹ ہے،

نبوت سے پہلے تقریباﹰ چھ ماہ سے ایک خاص بات یہ پیش آنے لگی کہ آپ ﷺ خواب دیکھتے اور وہ دن کے اجالوں میں حقیقت بن کر ظاہر ہوجاتا۔

آپ غار حرا میں تھے کہ  اس درمیان ایک رات کو  حضرت  جبرئیل ؑ  آئے، انھوں نے آپ ﷺ کو اپنے سینہ سے لگاکر بھینچا اور کہا: پڑھئے!آپ ﷺ نے فرمایا:میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، تین بار اسی طرح ہوا، پھر ،اقرا بِسمِ رَبِکَ  کی ابتدائی آیات آپ ﷺ پر نازل ہوئیں، اس طرح آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا تاج پہنایا گیا، اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال چھ ماہ تھی، قرآن مجید کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ رمضان المبارک میں پیش آیا، بعض اہل علم کی تحقیق کے مطابق ۱۴ اگست ۶۱۰ء کا واقعہ ہے۔آپ ﷺ اس واقعہ سے گھبراگئے،اور  گھر آئے۔

حضرت  خدیجہ ؓ نے تسلی دی کہ آپ تو  صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کی مصیبتوں میں کام آتے ہیں، مہمانوں کو پناہ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرسکتے، مکہ میں توراۃ  اور  انجیل کے ایک  بڑے عالم ورقہ بن نوفل تھے، یہ حضرت  خدیجہ ؓ کے قریبی رشتہ دار  تھے، حضرت  خدیجہ ؓ آپ ﷺ کو ان کے پاس لے گئیں اور ان سے پوری کیفیت سنائی، حضرت  ورقہ بن نوفل نے حالات سن کر اور خود سوالات کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت  موسیٰؑ پر آیا تھا، ورقہ نے اطمینان دلایا اور کہا کہ کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی، آپ ﷺ کو اس پر حیرت ہوئی، ورقہ نے کہا کہ جس شخص کو بھی اس منصب نبوت  سے نوازا گیا ہے، اس کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہے۔اس کے بعد ابتداء تین سال تک آپ خاموشی سے لوگوں کو دین کی طرف بلاتے رہے،  پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ آپ ﷺ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دین حق کی طرف بلائیں  

وَانْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ

ترجمہ: اور (اے پیغمبر) تم اپنے قریبی رشتہ داروں  کو خبردار کرو۔

یہ حکم ملنے کے بعد  آپ ﷺ نے بنو ہاشم کو کھانے پر مدعو کیا اور ان کے سامنے دین حق کا پیغام رکھا،ابولہب نے  سختی سے آپ ﷺ کی مخالفت کی اور صرف  حضرت  علیؓ  نے آپ کا ساتھ دینے کا  اعلان کیا۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا:

 فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ (حجر)

ترجمہ: جس بات کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے اسے کھلم کھلا  لوگوں کو سنا دو۔

یہ حکم ملنے کے بعد  تمام اہل مکہ کو دعوت دینے کے لئے آپ ﷺ  ایک صبح صفا کی پہاڑی پر چڑھے، اور مکہ کے قدیم دستور کے مطابق آواز  لگائی،سارے لوگ جمع ہوگئے،  آپ نے فرمایا: تم لوگوں مجھے سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا سمجھتے ہو؟  سب نے کہا کہ آپ سچے ہیں،  صادق و امین ہیں،   پھر آپ نے مزید اطمینان کے لئے فرمایا:اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمنوں کی فوج ہے جو حملہ کرنا چاہتی ہے، تو کیا تم اسے سچ مانوگے؟ لوگوں نے کہا:اگر آپ کہیں گے تو ہم یہ بات بھی سچ مان لیں گے، پھر آپ نے ان پر توحید و رسالت کو پیش فرمایا، ابوجہل اور ابولہب نے سنتے ہی مخالفت شروع کردی، اور اس وقت کسی شخص نے بھی آپ ﷺ کی دعوت قبول نہیں کی۔

نبوت کے بعد آپ ﷺ نے مکہ میں تیرہ سال  گذارے۔آپ ﷺ کی دعوت پر عورتوں میں سب سے پہلے حضرت  خدیجہ ؓ نے، مردوں میں حضرت  ابوبکرصدیق ؓ نے، بچوں میں حضرت  علی ؓ نے اور غلاموں میں زید بن حارثہ ؓ نے اسلام قبول کیا۔

نبوت کے بعد تیرہ سالہ مکی زندگی میں جو اہم واقعات پیش آئے وہ اس طرح ہیں:

چوں کہ اس دور میں کھلے طور پر اسلام کی دعوت نہیں دی جاسکتی تھی۔اس لئے آپ ﷺ نے حضرت  ارقمؓ کے مکان  کو اپنے کام کا مرکز بنایا، جو صفا کی پہاڑی پر واقع تھا، آپ یہیں سے دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیتے اور جو لوگ مسلمان ہوجاتے ان کی تربیت فرماتے۔

سنہ ۶ نبوی میں حضرت  حمزہؓ اور اس کے بعد حضرت  عمرؓ نے اسلام قبول کیا، ان دونوں کے مسلمان ہونے سے اسلام کو بہت قوت پہنچی۔

آپ ﷺ  پوری قوت اور توجہ کے ساتھ دعوت کا کام کرتے رہے، جو صحابہ ایمان لاچکے تھے، انھوں نے بھی اپنے دوستوں کو ایمان کی دعوت دی اور اس کی وجہ سے بہت سے لوگ مسلمان ہوئے، آپﷺ نے حج کے موقع پر  اور عکاظ کے میلہ میں بھی دعوت پیش فرمائی، جہاں پورے عرب سے لوگ آیا کرتے تھے،  اس طرح پورے جزیرۃ العرب میں اسلام کی آواز پہنچ گئی۔

اہل مکہ نے مسلمانوں اور خاص کر اسلام قبول کرنے والے غلاموں کو بڑی تکلیفیں پہنچائیں، لیکن سب کے سب ایمان پر ثابت قدم رہے۔

خود رسول اللہ  کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی گئیں، آپ کے مکان کی دونوں جانب ابولہب اور عتبہ بن ابی معیط کا مکان تھا، یہ دونوں پڑوسی آپ کے گھر میں گندگی اور کوڑا کرکٹ پھینک دیتے، آپ کی دونوں صاحبزادیاں حضرت  رقیہؓ اور حضرت  ام کلثومؓ نبوت سے پہلے ابولہب کے دو بیٹوں عقبہ اور عتبہ سے منسوب تھیں، ابولہب نے دباؤ ڈال کر یہ نسبتیں توڑدیں، ابولہب کی بیوی ام جمیل بھی آپ کو ہمیشہ برا بھلا کہتی رہتی، آپ کی عداوت میں ابوجہل بن ہشام، عقبہ بن ابی معیط اور ابولہب خاص طور پر پیش پیش تھے۔

آپ ﷺ  کو دعوت دین سے روکنے کے لئے یہ  پیش کش کی گئی کہ اگر آپ ﷺ حکومت چاہتے ہیں تو اہل مکہ آپ ﷺ کو اپنا بادشاہ بنالیں گے، دولت چاہتے ہیں تو سب لوگ مل کر دولت اکٹھا کردیں گے، اور کسی حسین لڑکی سے نکاح کرنا چاہتے  ہیں، تو ان سے نکاح کردیں گے، آپ ﷺ نے اس کے جواب میں قرآن کریم کی چند آیات پڑھیں اور انھیں دین کی حقیقت سمجھانے کی کوشش کی۔

جب وہ اس سے مایوس ہوگئے تو انھوں نے آپ ﷺ کے محسن چچا حضرت  ابوطالب سے کہا کہ یا تو آپ اپنے بھتیجے کو اس نئے دین کی دعوت سے روکیں یا پھر آپ بھی میدان میں آجائیں؟ ابوطالب نے آپ ﷺ  سے کہا:بھتیجے! بوڑھے چچا پر اتنا ہی بوجھ ڈالو جتنا وہ برداشت کرسکے، یہ سن کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، آپ ﷺ نے سمجھا کہ شاید چچا کا سہارا بھی ختم ہونے والا ہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور ایک ہاتھ میں چاند رکھ دیں، تب بھی میں اس دعوت سے باز نہیں آسکتا۔آپ ﷺ کے اس عزم کو دیکھ کر ابوطالب نے کہا:تم جو کچھ کرتے ہو کرتے رہو، میرے جیتے جی کوئی تم کو نقصان نہیں پہنچاسکتا۔

مکہ والوں کی اذیت رسانی کو دیکھتے ہوئے نبوت کے پانچویں سال رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنےکی اجازت دے دی، چنانچہ رجب ۵ نبوی، مطابق ۶۱۴ء میں گیارہ مرد اور چار عورتیں حبشہ کے  لئے روانہ ہوئے، مہاجرین حبشہ کو کسی طرح یہ غلط خبر پہنچی کہ مکہ کے لوگ مسلمان ہوگئے، چنانچہ کچھ لوگ واپس آگئے،لیکن مکہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی، اور  مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم بڑھتا ہی جارہا تھا، نبوت کے چھٹے سال میں دوبارہ مسلمانوں کا  ایک قافلہ  حبشہ کی طرف ہجرت کر گیا، اس طرح حبشہ میں تراسی مرد اور اٹھارہ عورتیں جمع ہوگئے، ان میں حضرت  علیؓ کے بھائی حضرت  جعفر طیارؓ بھی تھے، اہل مکہ نے پہلے تو ہجرت کرنے والوں کا پیچھا  کیا اور روکنے کی کوشش کی، لیکن جب اس میں کامیابی ملی  تو حبشہ کی طرف  تحائف دے  کر اپنا نمائندہ بھیجا،لیکن یہاں سے  مکہ والے ناکام لوٹے، نجاشی نے ان کی کوئی بات نہیں سنی۔

حبشہ میں اہل مکہ کی چال  ناکام ہونے کے بعد قریش  کا ایک اور وفد حضرت  ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک خوبصورت قریشی نوجوان عمارہ بن ولید بن مغیرہ کو ساتھ لایا اور پیش کش کی  کہ اس خوبصورت نوجوان کو قبول کرلیں اور اس کے بدلہ میں محمد ﷺ  کو ہمارے حوالہ کردیں، حضرت  ابوطالب نے فرمایا:یہ کوئی بات ہوئی  کہ میں تمہارے بچے کی پرورش کروں، اس کو کلاؤں پلاؤں ،  اور اپنے لڑکے کو قتل کے لئے  تمہارے حوالہ کردوں،  اور آپ نے اس نامعقول پیشکش کو نامنظور کردیا۔

نبوت کے ساتویں سال کا ایک اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ حضرت  ابوطالب کی طرف سے رسول اللہ ﷺ  کی پشت پناہی کے پس منظر میں بنو ہاشم کا بائیکاٹ کردیا گیا، اس بائیکاٹ میں جو دفعات لکھی گئیں وہ یہ تھی: ان لوگوں سے کوئی خرید و فروخت نہ کی جائے، نہ انھیں لڑکیاں دی جائیں اور نہ ان سے لڑکیاں لی جائیں، ان سے گفتگو نہ کی جائے،  کوئی حمایتی خوراک پہنچانے کی کوشش کرے تو وہ روک دی جائے، اور انھیں گلیوں اور بازاروں میں گھومنے پھرنے نہ دیا جائے،یہ بائیکاٹ اس وقت تک رکھا جائے جب تک بنو ہاشم محمد   کو حوالہ نہ کردیں۔

پھر اس معاہدہ کو  بیت اللہ کی چھت سے لٹکادیا گیا، ایک  محرم سن ۷ نبوی میں یہ معاہدہ لکھا گیا، حضرت  ابوطالب بنو ہاشم کو ساتھ لےکر شعب ابی طالب نامی گھاٹی میں مقیم ہوگئے، لیکن  ابولہب حضرت  ابوطالب کے ساتھ نہیں آیا ،  نبوت کے نویں سال کے اختتام پر یہ بائیکاٹ ختم ہوا۔ تین سال تک سخت مشقتوں اور فاقوں میں گزاریں۔

نبوت کے ۱۰ ویں سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو بڑے حادثات پیش آئے، ایک یہ کہ  ۱۱ رمضان سن  نبوی۱۰ میں آپ ﷺ کی ہمدرد  رفیق حیات ام المومنین حضرت  خدیجہ ؒ کا انتقال ہوگیا، دوسرے آپ ﷺ کے چچا حضرت  ابوطالب بھی وفات پاگئے۔

 اہل مکہ کی تکلیفوں  کے مقابلہ میں ظاہری طور پر آپ ﷺ کو سہارا دینے والے اور دلداری کرنے والے یہی دونوں تھے، اس لئے اس واقعہ سے آپ ﷺ کو بڑا صدمہ ہوا اسی وجہ سے اس سال  کو عام الحزن(غموں کا سال) کہا گیا ۔

سن نبوی۱۰  ہی میں رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کی بےرخی دیکھتے ہوئے طائف کا سفر فرمایا کہ شاید وہاں کے لوگ اسلام قبول کرلیں، لیکن اہل طائف کا سلوک اہل مکہ سے بدتر ثابت ہوا، انھوں نے آپ ﷺکے ساتھ بدسلوکی کا معاملہ کیا، اس طرح آپ ﷺ پر پتھر برسائے کہ جسم لہولہان ہوگیا، اور نعلین مبارک میں خون کی تہیں جم گئیں، اس سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ حضرت  زید بن حارثہؓ بھی تھے، یہ سفر ۲۷ شوال سن نبوی ۱۰ میں ہوا تھا۔

رجب سن نبوی۱۰ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو معراج سے سرفراز فرمایا، حضرت  جبرئیل ؑ آپ ﷺ کو اپنے ساتھ لے کر مکہ سے بیت المقدس گئے، بیت المقدس میں آپ ﷺ نے انبیاء کی امامت فرمائی، پھر وہاں سے آپ ﷺ کو آسمان پر لے گئے، ساتویں آسمان کی سیر کرائی، حضرت  آدم ؑ، حضرت  ابراہیمؑ، حضرت  ادریسؑ، حضرت  یوسفؑ وغیرہ سے ملاقاتیں ہوئیں اور جنت و دوزخ کے بھی مناظر دکھائے گئے، اسی موقعہ سے آپ ﷺ پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں، جو بار بار کی درخواست پر پانچ باقی رہ گئیں، اسی موقع پر سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر القاء فرمائیں۔

 ابوجہل اور اہل مکہ نے اس واقعہ پر خوب مذاق اڑایا،  اور حضرت  ابوبکرصدیق ؓ نے اس بات کو سنتے ہی فورا  بلا تامل  تصدیق فرمائی اور صدیق کے لقب سے سرفراز ہوئے۔

حج کے موقع سے عرب کے کونے کونے سے لوگ مکہ و منیٰ پہنچتے تھے اور رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ان پر دعوت حق پیش فرماتے تھے،اکثر قبیلے  توجہ نہیں دیتے تھے ، یا انکار کرتے تھے، سن ۱۰ نبوی کے حج میں حضور ﷺ  کی ملاقات مدینہ کے وفد سے ہوئی، آپ ﷺ نے ان پر دعوت اسلام پیش کی، اور چار مردوں اور دو عورتوں نے اسلام قبول کیا، آئندہ سال حج کے  موقع پردوبارہ اہل مدینہ سے ملاقات ہوئی، یہ بارہ آدمی تھے۔جن میں سے پانچ گذشتہ سال کے اہل ایمان تھے۔اور سن نبوی۱۳ میں ۷۳ مرد اور دو عورتیں مسلمان ہوئے، اس موقع پر مدینہ والوں  سے  یہ بات طے  پاگئی کہ مسلمان اگر ہجرت کرکے مدینہ جائیں گے تو مدینہ کے لوگ پناہ دیں گے، اور  آپ  ﷺکو ہر طرح کا ساتھ دیں گے۔

  پھر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو ہجرت کرنے کا حکم دیا، آہستہ آہستہ لوگ مدینہ منتقل ہونے لگے۔یہاں تک کہ صرف چند مسلمان مکہ میں باقی رہ گئے آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کے انتظار میں تھے، بالآخر آپ ﷺ کو بھی ہجرت کا حکم ملا ، آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ کا جانا بھی طے ہوا، حضرت  ابوبکرؓ نے دو اونٹنیاں خاص اسی مقصد کے لئے خرید رکھی تھیں اور مدینہ کا راستہ بتانے کے لئے ایک رہنما بھی طے کرلیا تھا،

ادھر جب اہل مکہ نے دیکھا کہ مسلمان مدینہ میں جمع ہوگئے ہیں اور انھیں خیال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ بھی چلے جائیں گے تو انھوں نے دارالندوہ میں مشورہ کیا اور مشورہ میں یہ بات طے پائی کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک نوجوان تلوار لےکر آپﷺکے دولت خانہ کا محاصرہ کرلے، اور سب لوگ ایک ساتھ مل کر آپ ﷺ پر اس وقت حملہ کردیں، جب آپ ﷺ صبح کو باہر آئیں، تمام قبائل کی شرکت کی وجہ سے بنو ہاشم سب  سے بدلہ نہیں لے سکیں گے۔اسی رائے پر اتفاق ہوا، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس کی خبر دے دی۔آپ ﷺ نے لوگوں کی امانتیں حضرت  علیؓ کے حوالہ کیں۔اپنے بستر پر ان کو سلادیا، اور ایک مٹھی مٹی پھینکتے ہوئے گھر سے باہر نکل آئے دشمنوں کو کوئی خبر بھی نہ ہوسکی، آپ ﷺ سیدھے حضرت  ابوبکرصدیق ؓ کے گھر آئے اور ۲۷ صفر سن نبوی۱۳ بروز جمعرات ان کو ساتھ لے کر غار ثور کی پناہ لی، تین دن وہیں مقیم رہے، پھر ایک  ربیع الاول سن نبوی۱۳  بروز اتوار رات  کو مدینہ کی طرف نکلے، یہ قافلہ چار آدمیوں پر مشتمل تھا ۔ آپ ﷺ، حضرت  ابوبکرؓ، حضرت  ابوبکرؓ کے غلام اور راستہ بتانے والا شخص عبداللہ بن اریقط۔

۸ ربیع الاول سن نبوی۱۳، مطابق ۲۰ ستمبر ۶۲۲ء ، پیر کے روز   قباء پہنچے، قباء میں آپ ﷺ نے  چودہ دنوں تک قیام فرمایا،  اور یہیں آپ ﷺ نے مسجد قباء کی بنیاد رکھی، قباء میں انصار کے قبائل نے آپ ﷺ کا نہایت گرم جوشی سے  استقبال کیا،  آپ ﷺ نے جمعہ کے دن یہیں نماز جمعہ ادا فرمائی، یہ اسلامی تاریخ کا پہلا جمعہ تھا، پھر اسی دن قباء سے مدینہ تشریف لائے، مدینہ میں انصار نے بڑی ہی محبت کے ساتھ آپ ﷺ کا خیر مقدم کیا، ہر شخص چاہتا تھا کہ آپ ﷺ کا قیام اس کے گھر پر ہو، آخر آپ ﷺ کی اونٹنی حضرت  ابوایوب انصاریؓ کے مکان پر رکی اور آپﷺ ان ہی کے مہمان ہوئے، اس طرح اسلام کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے