بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن کی سچائی کے عقلی دلائل
یہ دور عقل پرستی کا دور سمجھا جاتا ہے، یعنی کہ لوگوں کا دعوی ہے کہ ہم وہی بات قبول کرتے ہیں جو عقل کے حساب سے صحیح ہو، عام طور پرایسے لوگ مذہبی لوگوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے، مذہب اسلام کا دار و مدار قرآن کریم پر ہے، سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم کی سچائی کے پیچھے کوئی عقلی ثبوت اور عقلی دلائل ہیں یا صرف بیوقوف لوگوں نے ایسے ہی اس کو اپنی زندگی کا قانون بنا دیا ہے، اور بے سوچے سمجھے اس کو فولو کر رہے ہیں،
شکاری خود شکار ہوگیا
آج ہم یہ بات ڈاکٹر گیری میلر کے حوالے سے پیش کریں گے۔
ڈاکٹر گیری ملر ایک سائنس دان تھے انہوں نے اعلی تعلیم میں بڑی ڈگریاں حاصل کی تھیں، وہ عیسائیت کی تبلیغ کرنے میں بڑے سرگرم تھے، انہوں نے سوچاکہ اگر میں قرآن کریم میں کوئی غلطی تلاش کر لوں گا تو مسلمانوں کو عیسائیت کی تبلیغ کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ قرآن ِ مجید کی سائنسی اور تاریخی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے، اور اس نیت سے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کیا، لیکن جیسے جیسے وہ قرآن کا مطالعہ کرتے گئے ، ان کے اندر کی دنیا بدلتی گئی ، اور ایک دن وہ آیا جب شکاری خود شکار ہوگیا، اور انہوں نے اسلام قبول کرکے اپنا نام عبد الاحد رکھا۔
پھر انہوں نے اسلام کی تبلیغ کرنا شروع کیا، اور ایک کتاب لکھی اس کتاب میں انہوں نے وہ دلائل جمع کئے ہیں جو عقل کو یقین دلاتے ہیں، اور قرآن کی سچائی کا اعلان کرتے ہیں، آج ہم اسی کتاب سے کچھ باتیں آپ کے سامنے پیش کریں گے۔
قرآن کی سچائی کی پہلی دلیل
قرآن کریم کی سچائی کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس میں ابولہب کے بارے میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ وہ ایمان نہیں لائے گا ، اور جہنم میں جائے گا، یہ پیشین گوئی پوری ہوئی، اور ابولہب کفر کی حالت میں مرا، وہ رسول پاک ﷺ کا بڑا دشمن تھا، وہ صرف دکھانے کے لئے ایمان لا سکتا تھا، کیوں کہ اس کے ایمان لانے سے قرآن کی پیشین گوئی غلط ہوجاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا، اور قرآن کی پیشین گوئی صحیح ثابت ہوئی۔
اسی طرح یہود کے بارے میں قرآن نے کہا تھا کہ وہ کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کریں گے، اب یہود کے پاس یہ اختیار تھا کہ ان میں سے کوئی ایک آدمی صرف ایک مرتبہ موت کی تمنا کرلے ، اتنا کرنے سے قرآن کی پیشین گوئی غلط ثابت ہوجاتی ، لیکن کسی ایک یہودی نے بھی موت کی تمنا نہیں کی، اور قرآن کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔
قرآن کی سچائی کی دوسری دلیل
قرآن کی سچائی کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس میں کئی تاریخی واقعات بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے کوئی واقعہ ایسا نہیں ہے جس کا تاریخ جاننے والوں نے انکار کیا ہو، حالانکہ یہ بات یقینی ہے کہ محمد ﷺ نے کسی سے بھی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، پھر ان کو وہ تاریخی واقعات کیسے معلوم ہوئے، ان میں کئی واقعات ایسے تھے جو مشرکین مکہ کو تو معلوم نہیں تھے، البتہ مدینہ کے یہود ان کو جانتے تھے، آج تک نہ کوئی یہ دعوی کر سکا کہ یہ واقعات میں نے سکھائے تھے، اور نہ کوئی یہ دعوی کر سکا یہ واقعات غلط ہیں، مطلب محمد ﷺ کو کسی نے سکھایا بھی نہیں، اور ان کے بیان کردہ واقعات صحیح بھی ہیں ، اس کا تو ایک ہی مطلب ہوتا ہے محمد ﷺ پر غیب سے خبریں آتی تھیں۔
قرآن کی سچائی کی تیسری دلیل
اور ایک دلیل یہ ہے کہ اس زمانے میں خیال تھا کہ ذرہ جس کو ایٹم کہتے ہیں وہ سب سے چھوٹی چیز ہوتی ہے، اس سے چھوٹی کوئی چیز نہیں ہوتی، اس وقت قرآن کی آیت میں یہ بیان ہوا
وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ
آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور تمہارے رب سے کوئی ذرہ برابر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمان میں، نہ اس سے چھوٹی، نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔
اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی ذرہ سے چھوٹی چیز بھی جانتے ہیں، یہ اس وقت کہا گیا تھا جب کہ ذرہ سے چھوٹی کا تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اب سائنس نے دریافت کر لیا ہے کہ ذرہ کے بھی کئی اجزاء ہوتے ہیں۔ اس وقت اس بات کو جاننے والا کوئی نہیں تھا۔
قرآن کی سچائی کی چوتھی دلیل
قرآن میں شہد کی مکھی کا اور اس کے شہد بنانے کا ذکر آیا ہے، اور اس کے لئے مؤنث یعنی کہ فی میل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،پہلے یہ کوئی اتفاق لگ رہا تھا ، لیکن ابھی جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ شہد بنانے والی مادہ مکھی ہوتی ہے، شہد بنانا مادہ مکھیوں کا ہی کام ہوتا ہے، یہ حقیقت اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا۔
قرآن کی سچائی کی پانچویں دلیل
عقل کو متوجہ کرنے والی ایک بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بے پناہ مشکلات سے گزریں، سخت تکلیفیں اٹھائیں ، حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کا ہر طرح سے تعاون کیا، مشکل ترین حالات میں آپ کا ساتھ دیا، ہر وقت آپ کو تسلی اور ہمت دیتی رہیں، وہ بھی نازک ترین حالات میں وفات پاگئیں، حضرت فاطمہ ؓ کے علاوہ آپ ﷺ کی اولاد آپ کی حیات ہی میں وفات پاگئیں، اس کے علاوہ بھی زندگی میں تکلیفوں کے پہاڑ ٹوٹے ہیں، وہ سارے حالات ایسے تھے جو انسان کو اندر سے ہلا دیتے ہیں، اور زندگی میں اس کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے، اگر قرآن کریم محمد ﷺ کا کلام ہوتا تو ان واقعات کا کہیں نہ کہیں تذکرہ ضرور ہوتا، لیکن کہیں بھی قرآن میں ان واقعات کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کا کلام نہیں ہے۔
قرآن کی سچائی کی چھٹی دلیل
اسی طرح انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو چھپاتا ہے، اور کامیابیوں کا بڑھ چڑھ کر تذکرہ کرتا ہے، لیکن قرآن کریم کی انوکھی بات یہ ہے کہ اس میں جیت اور کامیابی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے، اور ناکا می کابھی تذکرہ موجود ہے۔ غزوہ احد اور غزوہ حنین کی ناکامیوں کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے، اگر یہ انسان کا کلام ہوتا تو اس میں اپنی جیت اور کامیابیوں کے قصے ہی بھرے ہوتے۔
قرآن کی سچائی کی ساتویں دلیل
ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن لوگوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ آؤ قرآن میں غور و فکر کرو، آؤ قرآن میں کوئی غلطی نکال کر دکھاؤ، ایسی کئی آیتیں ہیں، کسی بھی مذہبی کتاب میں اس طرح کی دعوت اور چیلیج موجود نہیں ہے، بلکہ دوسرے مذہب والے اپنی مذہبی کتابوں کو راز میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو محدود کرتے ہیں، لیکن قرآن اعلان کرتا ہے، اور دعوت دیتا ہےکہ آؤ اس میں غور و فکر کرو، تمہیں اس میں سچائی ملے گی۔ اس طرح کا چیلیج انسانی فطرت کے خلاف ہے، جیسے کوئی بھی امتحان دینے والا اپنے امتحان کے پرچہ میں یہ نہیں لکھے گا کہ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں ، تم اس میں ایک غلطی بھی نہیں نکال سکتے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اس طرح لکھنے سے پرچہ چیک کرنے والا پوری رات جاگ کر اس پرچہ میں غلطی تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس لئے اپنے دشمنوں اور مخالفین کو اس طرح چیلنج کرنا انسانی فطرت نہیں ہے، قرآن نے ایک مرتبہ نہیں کئی بار صاف الفاظ میں چیلنج کیا ہے، اس طرح چیلنج کرنا ہی ایک دلیل ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔
ایک نوجوان کا قرآن میں غلطی نکالنے کا چیلنج
ڈاکٹر میلر کہتے ہیں کہ افریقہ میں ایک پروگرام کے بعد ایک آدمی بڑے غصے کی حالت میں میرے پاس آیا ، اور کہنے لگا کہ میں آج رات جاگوں گا، اور قرآن میں خامیاں ڈھونڈ لاؤں گا، میں نے اسی وقت کہا کہ باکل یہی تو قرآن چاہتا ہے، وہ چیلنج کرتا ہے کہ آؤ غور کرو، تم غصے کی حالت میں بھی آؤ گے بشرطیکہ انصاف کی نیت ہو تو قرآن تمہارا دل جیت لے گا۔
قرآن کی سچائی کی آٹھویں دلیل
قرآن کریم میں جنین کے حالات بیان کئے ہیں، یعنی کہ ماں کے پیٹ میں بچہ کن حالات اور مراحل سے گزرتا ہے اس کو بیان کیا ہے، ڈاکٹر کیٹ مور علم جنین میں عالمی شہرت رکھتے ہیں، اور انہوں نے اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں ، ان کو ریاض میں بلایا گیا، اور ان کے سامنے وہ قرآنی آیات رکھی گئیں جن میں جنین کے حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور اس سے پوچھا گیا کہ جدید سائنس کی روشنی میں کیا یہ باتیں صحیح ہے؟ ڈاکٹر مور کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی جب انہوں نے دیکھا کہ آج جو دنیا جانتی ہے وہ قرآن میں صدیوں پہلے بیان ہو چکا ہے، یہاں تک کہ اس نے اپنی کتاب Before We Born کے نئے ایڈیشن میں جنین کے حالات لکھنے کے بعد یہ اضافہ کیا کہ ان تفاصیل کو قرآن نے چودہ سو سال پہلے بیان کر دیا ہے، اور اس کے بارے میں مسلمانوں کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہیں تھا۔ امیزنگ قرآن کے مصنف کہتے ہیں کہ میری ملاقات ڈاکٹر مور سے ہوئی ہے، اور ہم نے اس موضوع پر کافی دیر بات چیت کی تھی، انہوں نے یہ بھی کہا تھا قرآن میں ایسی باتیں بھی ہیں جو دنیا صرف تیس سالوں سے جانتی ہے، اس سے پہلے نہیں جانتی تھی۔
ڈاکٹر مور سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ ہوسکتا ہے کہ عرب حضرات پہلے سے جنین کے ان حالات کو جانتے ہو، جو قرآن میں بیان کئے گئے ہیں، تو ڈاکٹڑ مور نے جواب دیا کہ قرآن کی باتوں میں بعض ایسی بھی ہیں جن کو جدید آلات کے بغیر جاننا مشکل ہے، اس لئے یہ کہنا کہ عرب پہلے سے جانتے ہوں گے یہ ایک مذاق سے کم نہیں ہے۔
پھر کسی نے سوال کیا کہ ا چھا آپ ان باتوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، تو ڈاکٹر مور نے جواب دیا کہ یہ کسی انسان کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ باتیں اللہ کی طرف سے ہی ہوسکتی ہے۔
ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے قرآن کسی انسان کا کلام نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے،
یہاں یہ بات نوٹ کرلی جائے کہ قرآن کی سچائی کے بس اتنے ہی دلائل نہیں ہیں، یہاں تو صرف وہ بیان کئے جن کو ڈاکٹر میلر نے بیان کیے ہیں۔

0 Comments