علم نافع سے کیا مراد ہے

علم نافع سے کیا مراد ہے

کیا علم میں کوئی تفریق نہیں ہے، اور علم نافع سے کیا مراد ہے

ابھی وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان  عصری علوم کی طرف توجہ دیں، تاکہ سیاسی اور معاشی مشکلات کا حل نکالنے کی طرف آگے بڑھا جا سکے، خوشی کی بات یہ ہے کہ کئی لوگ اور کئی جماعتیں اس کی فکریں  کر رہی ہیں، اور قوم کو عصری علوم کی طرف لانے کی اور اس کے متعلق بیداری پیدا کرنے کی کوششیں  کر رہے ہیں

ان میں بعض لوگ عصری علوم کی اہمیت بیان  کرتے ہوئے خاص طور پر ایک بات کہتے ہیں کہ اسلام میں دینی علوم اور دنیوی علوم کی کوئی تقسیم نہیں ہے، اسلام نے دین اور دنیا کے علم میں کوئی فرق نہیں کیا ہے، بلکہ سارے علوم برابر ہیں، بس شریعت میں علم نافع اور غیر نافع کی تقسیم ملتی ہے ، اس کے علاوہ اور تقسیم نہیں ملتی، پس جو بھی علم نافع ہوگا وہ سب برابر ہے ، چاہے اس کو دنیوی کہا جائے یا دینی کہا جائے۔

بعض مرتبہ بدر کے قیدیوں سے دنیوی علم حاصل کرنے کی مثال بھی دی جاتی ہے۔

لیکن یہ بات درست نہیں ہے، یہ غلطی عمومی طور پر ہو رہی ہے، کئی لوگ اس غلطی میں مبتلا ہیں۔

شریعت میں اور اسلام میں واضح طور پر دینی علم اور دنیوی علم کی تقسیم موجود ہے،

علم نافع کا مطلب

دینی و دنیاوی علم میں تفریق کی مثال

دینی علم اور دنیوی علم میں تقسیم نہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو فضائل دینی علم کے لئے آئے ہیں ، وہی فضائل دنیوی علم کے لئے بھی ہونے چاہیئں، مثلا حدیث  میں آیا ہے کہ علم رکھنے والے  انبیاء کے وارث ہیں ، اب اگر علم میں کوئی تقسیم نہیں ہیں دنیوی علم رکھنے والے بھی انبیاء کے وارث ہونے چاہئیں، اسی طرح علم رکھنے والوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ قیامت کے دن سفارش کریں گے ، اب اگر علم میں کوئی تقسیم نہیں ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ  دنیوی علم رکھنے والے بھی قیامت کے دس سفارش کریں گے ، اس حساب سے تو پھر یہ کہنا چاہئے کہ ڈاکٹر اور وکیل بھی انبیاء کے وارث ہیں، اور وہ قیامت کے دن سفارش بھی کریں گے، اور اگر یہ بات قابل قبول نہیں ہے تو یہی تو دینی علم اور دنیوی علم میں فرق اور تقسیم ہوگئی۔

رسول اللہ ﷺ نے عملی طور پر اس میں فرق بتا دیا ہے، رسول اللہ ﷺ بڑے اہتمام سے یہ دعا کیا کرتے تھے، رب زدنی علما، اسی طرح یہ دعا بھی کیا کرتے تھے ، اللھم انی اسئلک علما نافعا۔  علم کے بارے میں اتنی زیادہ دعا کرنے کے با وجود پوری زندگی آپ ﷺ نے دنیوی علم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، آپ ﷺ خطوط اور وحی کی آیتیں دوسروں سے لکھواتے تھے، لیکن کبھی یہ کوشش نہیں کی خود لکھنا پڑھنا سیکھ لیں، اور نہ اللہ تعالی نے وحی سے آپ کو سیکھایا، بدر کے قیدیوں سے لکھنا پڑھنا سیکھنے کے لئے چند لڑکوں کو پیش کیا ، لیکن نہ خود اس کو سیکھا، اور نہ عمومی طور سیکھنے کا حکم فرمایا،

بلکہ ایک موقع پر آپ ﷺ کو یہ بیان کرنا تھا کہ مہینہ 29 یا 30 دنوں کا ہوتا ہے، اس وقت بھی آپ ﷺ نے صحابہ کو انگلیوں کے اشارے سے بتایا ، اور اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ ہم انپڑھ لوگ ہیں، لکھنا پڑھنا نہیں جانتے ، اس بات کا اقرار کرنے کے بعد نہ صحابہ کو اس پر ملامت کی، اور اس لکھنا  پڑھنا  سیکھنے کی کوئی ترغیب دی، اس سے بالکل صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے نزدیک دنیوی علوم کی حیثیت دو نمبر کی تھی،

مزید یہ کہ آپ ﷺ کا یہ معاملہ صرف دنیوی علوم کے بارے میں نہیں بلکہ ضروری علوم کے بارے میں تھا، یعنی دنیوی علوم تو تھے ، لیکن ایسے تھے جن کی ہر وقت ضرورت پڑتی  ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے علم میں درجہ بندی ضرور ہے، اس کے علاوہ کھجور وں میں تابیر کے مسئلہ میں بھی آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا تھا کہ انتم اعلم بامور دنیاکم ، یعنی تم لوگ تمہارے دنیا کا علم زیادہ جانتے ہو، مطلب تم اپنے دنیوی علم کے اعتبار سے عمل کر سکتے ہو، حدیث کے ان الفاظ نے تو سارا معاملہ ہی صاف کر دیا، کیوں کہ کچھ ایسا علم تھا جو صحابہ کے پاس تھا ، اور رسول اللہ ﷺ کے پاس نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ نے دنیوی علم کہہ کر صحابہ کو اس کے مطابق عمل کرنے کی اجازت تو دے دی، لیکن آپ نے خود سیکھنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔

علمِ نافع کے متعلق ایک غلط فہمی

علم نافع یعنی نفع دینے والا علم، اس  معنی کے اعتبار سے ہر اس علم کو جو کسی بھی طرح کا نفع دینے والا ہو اس کو  علم نافع کہہ کر ان احادیث کی مراد بنادیتے ہیں جن میں علم نافع کا سوال کیا گیا ہے، یعنی کہ حدیث میں جو علم نافع کا سوال کیا گیا ہے اس سے مراد ہر وہ علم ہے جس میں دینی یا دنیوی نفع ہو، لیکن یہ بات بھی حقیقت کے خلاف ہے، خود رسول اللہ ﷺ کا عمل اور شارحین کی تشریحات اس کا انکار کرتی ہیں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ علم نافع کا بار بار سوال کرے ، اور جب اس کو سیکھنے کا موقع ملے تو سیکھنے کی تکلیف نہ اٹھائے، پس یہ جان لینا چاہئے کہ احادیث میں علم نافع سے مراد وہ علم ہے جو آخرت میں نفع دینے والا ہو۔

حقیقی علم کیا ہے؟

یہاں تک تو آپ کا عملی نمونہ تھا ، اب میں آپ کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں جس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ علم کس کو کہتے ہیں۔حدیث میں ہے

العلم ثلاثۃ  آیۃ محکمۃ ، او سنۃ قائمۃ ، او فریضۃ عادلۃ ، وما سوی ذلک فھو فضل۔

علم تین چیزوں کا نام ہے  (۱) محکم قرآنی آیات  (۲) رسول اللہ سے ثابت احادیث (۳) فریضۃ عادلہ ، ان تین کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔

ابھی اس حدیث کی زیادہ تشریح کا موقع نہیں ہے، ابھی صرف اتنا جاننا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شرعی علوم کو ہی اصل علم کہا ہے، اور باقی چیزوں کو زائد کہا ہے۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دینی علم اور دنیوی علم میں فرق ہے۔

ابھی اس وقت چونکہ مادی علوم کا نفع سامنے نظر آتا ہے، اور دینی علوم کا نفع سامنے نظر نہیں آتا ، اس لئے عمومی طور لوگوں کا رجحان دنیوی علوم کی طرف بڑھتا جارہا ہے، اور دینی علوم کی طرف سے بے رغبتی بڑھتی جارہی ہے، اب اگر ایسی باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ دینی علم یا دنیوی علم برابر ہے تو کوئی بھی دینی علم کی طرف جانے کی تکلیف کیوں اٹھائے گا۔

قیامت کے قریب کون سا علم اٹھا لیا جائے گا

ویسے بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا، اب دیکھ لیں کہ کونسا علم کم ہوتا جارہا ہے، کس کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہورہی ہے، ظاہر ہے وہ دینی علم ہے، رہی بات دنیوی علوم کی تو وہ تو روز بروز ترقی کر رہا ہے ، اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دینی علم اور دنیوی علم میں فرق ہے ، کیوں کہ اگر علم میں کوئی تقسیم نہیں ہے تو دنیوی علوم میں تو بہت ترقی ہو رہی ہے، نئی نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی سامنے آتی رہتی ہے، پھر تو ابھی قیامت کو بہت ہی زیادہ دور ہونا چاہئے،کیوں کہ علم تو کم نہیں بلکہ بڑھ رہا ہے،  جبکہ  دوسری نشانیوں بتا رہی ہیں کہ قیامت قریب ہے، اس سے  صاف ظاہر ہوتا ہے  کہ علم پڑھ رہا ہے وہ حدیث کی مراد ہے ہی نہیں ،  بلکہ اس سے دینی علم مراد ہے ۔

اب جب پہلے سے ہی دینی علم اٹھتا جا رہا ہے ، اور پھر یہ کہا جائے کہ دینی علم ہو یا دنیوی علم سب برابر ہے تو بتائیں دینی علوم میں کتنا بحران آئے گا، بہر حال حقیقت میں بھی دینی علم اور دنیوی علم میں فرق ہے، اور حکمت کے طور بھی دونوں میں فرق قائم رکھنا ضروری ہے۔

عصری علوم کی ترغیب کے لئے کن آیات و احادیث کو ذکر کرنا چاہئے؟

اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ عصری علوم کی ترغیب میں وہ آیا ت و احادیث پیش کرنا جن میں علم کے فضائل بیان کئے گئے ہیں، یہ درست نہیں ہے، کیوں ان ایات و احادیث میں وہ علم مراد ہی نہیں ہے۔

بلکہ ایسے موقع پر وہ آیات و احادیث بیان کرنی چاہئے جن میں مخلوق کی خدمت اور ان کے تعاون کے فضائل بیان کئے گئے ہیں، کیوں کہ ایجیوکیشن اور عصری علوم پر جو فضائل ملیں گے وہ علم کے نہیں بلکہ خدمت خلق کے اور مخلوق کی مدد کرنے کے فضائل ملیں گے۔ کتاب النوازل میں لکھا ہے:

احادیثِ شریفہ میں علم کی فضیلت کا جہاں ذکر آیا ہے اس سے علم دین مراد ہے، (کتاب النوازل دوسرا حصہ)

کتاب النوازل میں کئی دلائل اور حوالے بھی دیئے گئے ہیں ، زیادہ جانکاری کے لئے وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

مذکورہ بالا باتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیوی علوم ممنوع ہیں، یا غیر اہم ہیں، بلکہ اسباب کی اس دنیا میں انفرادی اور اجتماعی ضروریات کی تکمیل کے لئے دنیوی علوم حاصل کرنا بھی اہم ہوجاتا ہے، اس لیے دنیوی علوم کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے، جیسا کہ دینی علوم کی طرف دی جاتی ہے۔

اس حساب سے اگر کوئی یہ کہے کہ دنیوی علوم اور دینی علوم میں فرق نہیں کرنا چاہیے، یعنی کہ دونوں کی طرف توجہ دینی چاہئے، یا دنیوی اور دینی علوم کے نظام میں تفریق نہیں کرنی چاہیے تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے۔

ذکورہ بالا باتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیوی علوم ممنوع ہیں، یا غیر اہم ہیں، بلکہ اسبا

Your content goes here. Edit or remove this text inline or in the module Content settings. You can also style every aspect of this content in the module Design settings and even apply custom CSS to this text in the module Advanced settings.

Your content goes here. Edit or remove this text inline or in the module Content settings. You can also style every aspect of this content in the module Design settings and even apply custom CSS to this text in the module Advanced settings.

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے