حالات و مصائب کا مقابلہ کرنے کے لئے روحانی تربیت کتنی ضروری ہے

حالات و مصائب کا مقابلہ کرنے کے لئے روحانی تربیت کتنی ضروری ہے

اس وقت امت مسلمہ جن مصائب و حالات اور مشکلات سے دو چار ہیں ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے اور قوم و ملت کی ترقی اور خوشحالی کے  لئے مختلف قسم کی فکریں اور کوششیں ہو رہی ہیں، اور ساری کوششیں اپنی اپنی جگہ مفید اور ضروری ہیں، ان کوششوں میں ایک بنیادی کوشش افراد سازی ہے، یعنی ایسے تربیت یافتہ افراد تیار کرنا جو حقیقی معنوں میں  میدان عمل کے شہسوار ہوں، خیالات و نظریات،جذبات و احساسات ، اخلاق و عادات اور گفتار و کردار میں اعلی شخصیت کے مالک ہوں، وہ روحانیت میں مضبوط ہوں، ان کے دل و دماغ شریعت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، ان کے وجود سے پاکیزہ اخلاق  اور عمدہ صفات کی خوشبو پھوٹ رہی ہو۔ افراد سازی  کے اس مرحلہ کی طرف توجہ کئے بغیر قوم و ملت کے باقی کاموں میں جھول رہ  جانا یقینی ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی بد قسمتی

مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ فرماتے ہیں:

آج دنیا کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ جماعتیں موجود ہیں، قومیں موجود ہیں، تنظیمیں اور ادارے موجود ہیں، لیکن صالح افراد نایاب ہیں، اور دنیا کے بازار میں سب سے زیادہ اسی جنس (صالح  افراد) کی کمی ہے، خطرناک بات یہ ہے کہ ان کی تیاری کی فکر بھی نہیں ہے۔ (تعمیر انسانیت)

اس زمانہ کی خطرناک غلطی یہ ہے کہ افراد کی اہمیت اور ان کی سیرت و صلاحیت کو بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے، عمارت بنائی جارہی ہے، مگر جن اینٹوں سے وہ بنے گی ان کو کوئی نہیں دیکھتا۔ (تعمیر انسانیت)

            مولانا عبدالباری ندوی ؒ لکھتے ہیں:

اس راقم احقر نے تو جب سے تھانہ بھون کے تجدید یافتہ اسلامی تصوف کو کچھ دیکھا اور سنا ہے، تب سے خود اپنے اندر اور باہر انفرادی و اجتماعی، قومی و سیاسی ، کسی معاملہ میں جہاں اور جو فساد نظر آتا ہے، اس کا بڑا سبب بدا ہۃ اسی  اسلامی تصوف یا اخلاقی و باطنی تربیت کی صلاح و اصلاح کی کمی و خامی دکھائی دیتی ہے۔  (تجدید تصوف و سلوک)

تعمیری منصوبے کب کامیاب ہوسکتے ہیں؟

آج ہر ملک کی تعمیر و ترقی اور جدید تنظیم کے لئے نئے نئے پلان اور منصوبے  (projects) بنائے جا رہے ہیں، ہمارے ملک میں بھی یہ کام تیزی سے ہو رہا ہے، خدا ان منصوبوں کو کامیاب کرے، لیکن یہ منصوبے ہماری نگاہ میں ابھی تک  ادھورے  اور ناقص ہیں، ان میں انسانیت کی تعمیر ، سیرت سازی  اور اخلاقی اصلاح کا کوئی خانہ نہیں ہے، ہمارا یقین ہے کہ جب تک طبیعتوں میں حرص و ہوس کی آگ سلگ رہی ہے ، دولت کا بھوت سوار ہے، انسان صرف روپیہ پیدا کرنے اور اس سے عیش کرنے ہی کو زندگی کا مقصد سمجھتا ہے، اس وقت تک کوئی نقشہ اور کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ (تعمیر انسانیت)

افراد سازی کا یہ کام کئی وجوہ سے ضروری ہے

تذکیہ و ایمانی تربیت

            پہلی وجہ یہ ہے کہ تزکیہ اور ایمانی تربیت ہر مسلمان کا فرض ہے، قومی اور ملی کاموں سے پہلے شریعت نے اسے اپنی اصلاح کا پابند کیا ہے، اپنی ذات کو بھول کر قومی اور ملی کاموں میں مصروف ہوجانا دین کے بھی خلاف ہے، اور  عقلمندی کے  بھی خلاف ہے۔ رسالت کے تین بنیادی مقاصد میں سے ایک تزکیہ ہے، جس کو اللہ تعالی قرآن میں مستقل طور پر بیان فرمایا ہے، بعض آیتوں میں کامیابی کو تزکیہ کے ساتھ جوڑا ہے،

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا

حقیقی زندگی

دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان کے لئے حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے، حقیقی اور دائمی  کامیابی  موت کے بعد کی کامیابی ہے، دنیا کی زندگی در اصل آخرت کی تیاری کے لئے ہے، اس لئے ایک مسلمان کی تمام کوششوں کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہونا چاہئے کہ ان کے بدلے آخرت میں اجر و ثواب حاصل ہو، اللہ تعالی کی رضامندی اور قرب حاصل ہو، اور یہ درحقیقت اتنا بڑا فائدہ ہے کہ اس کے سامنے دنیا کا ہر فائدہ اور ہر نفع ہیچ ہے،

اگر تربیت میں کمی رہ جاتی ہے تو انسان کوششیں کرتا ہے، لیکن دنیا کے عارضی  فوائد پر رضامند ہوجاتا ہے، اور یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔

پس آخرت کے  دائمی فوائد اور رضائے الہی  کو پیش نظر رکھنے کے لئے ، اور دنیوی مفادات کو دو نمبر پر رکھنے کئےتربیت ضروری ہے،  صحابہ کرام کی ایسی تربیت ہوئی تھی کہ وہ ہر عمل میں آخرت کے اجر کو سامنے رکھتے تھے، بیعت عقبہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے   ہر حال میں اطاعت اور جان و  مال کی  قربانی پر بیعت لی اس وقت وہ اس کے بدلے میں جنت کے وعدے پر مطمئن ہوگئے، اتنی بڑی قربانیوں کے بدلے میں ان کے پیش نظر صرف جنت تھی،

خندق  کے  موقع پر مسلمان  کتنی سنگین مشکلات سے دو چار تھے، خود قرآن میں اس سنگینی کا نقشہ کھینچا گیا ہے،   اس  وقت کی بڑی قربانیوں کے بدلے میں رسول اللہ ﷺ جو فائدہ  ان کے ذہن نشین کروانا چاہتے تھے وہ اس شعر سے واضح ہوتا ہے:  اللھم لا عیش الا عیش الاخرۃ،  اے اللہ زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، رسول اللہ ﷺ نے بار بار صحابہ ؓ سے  جانی اور مالی قربانیوں کا تقاضا فرمایا اور ہر مرتبہ ان قربانیوں کے بدلے آخرت کے اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے، اور صحابہ کرامؓ نے بھی اسی مزاج کو قبول فرمایا تھا،

حضرت مولانا عملی میاں ندوی ؒ لکھتے ہیں:

امتازت دعوة الانبياء وجهودهم بتجردها من التفكير فى المنافع المادية والثمرات العاجلة فكانوا لا يبتغون بدعوتهم وجهادهم إلا وجه الله وامتثال أوامره وتأدية رسالته، تجردت عقولهم وأفكارهم من العمل للدنيا ونيل الجاه وكسبِ القوة لأسرتهم أو أتباعِهم والحصولِ على الحكومة حتى لم يخطر ذلك ببال أصحابهم وأتباعهم وكانت هذه الحكومةُ التى قامت لهم فى وقتها والقوةُ التى حصلت لهم فى دورها لم تكن إلا جائزة من الله ووسيلة للوصول الى أهداف الدين وتنفيذِ أحكامه وتغيير المجتمع وتوجيه الحياة كما قال الله تعالى: {الذين إن مكناهم فى الارض أقاموا الصلاة وآتوا الزكاة وأمروا بالمعروف ونهوا عن المنكر} [الحج: (ولم تكن هذه الحكومة قط غاية من غاياتهم أو هدفا من أهدافهم أو حديثا من أحاديثهم أو حلما من أحلامهم. إنما كانت نتيجة طبيعية للدعوة والجهاد كالثمرة التى هى نتيجة طبيعية لنمو الشجرة وقوة إثمارها (ارید ان اتحدث الی الاخوان، لابی الحسن علی الندوی)

ترجمہ: انبیاء ؑ کی دعوت اور کوششوں کا امتیازی پہلو یہ تھا کہ وہ مادی منافع اور دنیوی فوائد کے حصول کی فکروں سے خالی تھیں، چنانچہ وہ حضرات اپنی دعوت و جہاد سے  اللہ تعالی کی رضامندی، اس کے حکموں پابندی، اور اس کی رسالت کی ادائیگی کے سوا کسی اور چیز کے خواہاں نہیں تھے، دنیا کے لئے، اپنے خاندان اور متبعین کے لئے عزت و شوکت کے حصول کی خاطر ، یا حکومت پانے کے لئے کوشش کرنا  ان کے خواب و خیال سے دور تھا، بلکہ ان کے اصحاب اور متبعین کے دلوں میں بھی اس کا خیال نہیں آتا تھا، اور جو  حکومت  اور غلبہ اپنے اپنے وقت پر  انہیں  حاصل ہوا وہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک انعام تھا، اور (وہ بھی دنیوی لذتیں حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ )  دینی مقاصد و  احکام کو نافذ کرنے کا  اور معاشرے کی تبدیلی کا وسیلہ تھا، اور اللہ تعالی کے فرمان (الذين إن مكناهم فى الارض أقاموا الصلاة وآتوا الزكاة وأمروا بالمعروف ونهوا عن المنكر} [الحج:) کے مطابق زندگی کی تعمیر کرنے کا ذریعہ تھا، یہ حکومت کبھی بھی ان کے مقاصد و اہداف  میں، یا ان کی باتوں اور خوابوں میں شامل نہیں تھی، بلکہ یہ ان کی دعوت و جہاد کا فطری نتیجہ تھا، جیسا کہ درخت کی  بہتر نشو نما کا طبعی نتیجہ پھل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اور ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

أن الدافع الحقيقى لدعوة الأنبياء – وفيمقدمتهم وعلى رأسهم محمد رسول الله ﷺ– ولجهدهمولجهادهم ، إنما هو طلب رضا الله تعالى لا غير ، وهو كالسيف الحادالذي يقطع كل شيء ويأتى على كل شيء، فلا عرض من متاعالدنيا ، ولا غرض من حكم ورئاسة أو ملك ، ولا طلب علو فيالأرض ، أو سيطرة على الناس ، أو تمتع برفاهية أو بذخ أو غضبأو حمية ، أو ثأر أو ترة ، أو دفاع عن أمة أو بلد يحملهم علىذلك. (العقیدۃ والعبادۃ والسلوک)

ترجمہ: انبیاء کرام اور حضرت محمد ﷺ  کی دعوت و کوشش اور جہاد کا اصل مقصد صرف رضائے الٰہی کی طلب تھا، اس کے علاوہ دوسرا کوئی مقصد نہیں تھا، اور یہ مقصد ایک تیز تلوار کی طرح کارگر ہے جو ہر چیز کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے اور ہر چیز پر آ پڑتی ہے، ان کی کوششوں کے پیچھے نہ دنیا کے ساز و سامان کی حرص ہوتی تھی، نہ حکمرانی، سرداری، بادشاہت، زمین پر سربلندی، یا لوگوں پر تسلط کا جذبہ ہوتا تھا ، نہ عیش و عشرت کی خواہش ہوتی تھی، نہ جوش اور انتقامی جذبہ کارفرما ہوتا تھا، نہ کسی قوم یا شہر کے دفاع اور حفاظت  کی خواہش انہیں آمادہ کرتی تھی، مذکورہ چیزوں میں سے کوئی بھی چیز ان کی دعوت و جہاد کا مقصد نہیں ہوتا تھا(بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب ہی ان کا اصلی مقصد ہوتا ہے)

جب رضائے الہی مقصود بن جائے

            تیسری وجہ جب  رضائے الہی اور جنت کی طلب ہی مقصود بن جائے گی تو عملی طور پر اس کا بہت بڑا اثر ظاہر ہوگا، ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ اتنے عظیم مقاصد ہیں  کہ بندہ اس کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اس مقصد کے علاوہ  دوسرا کوئی مقصد اتنا طاقتور نہیں ہے  ، مال و دولت ، عزت و عظمت ، قوت و سلطنت وغیرہ کوئی بھی مقصد ایسا نہیں ہے جس کے لئے انسان ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوجائے، دنیا کی کسی بھی چیز کو مقصد بنا کر کام کرنے سے قربانی کی سطح بہت ہی زیادہ پست رہتی ہے، اور اتنی کم قربانی کے ساتھ کوئی بڑے نتائج حاصل کرنا ناممکن ہے۔

اور دنیوی مفادات سے بے نیاز ہوکر آخرت اور رضائے الہی کی تلاش میں قربانیاں دینے کے لئے روحانی تربیت ضروری ہے۔ دنیا کی ترقی اور دنیا کے سکون اور دنیا کی عزت کو مقصد بنا کر کام کرنے والے سے زیادہ قربانی کی امید نہیں کی جا سکتی ہے، کیوں کہ وہ آئندہ کے سکون کے لئے یا دوسروں کے لئے اپنے سکون کو کیوں برباد کرے گا، دوسروں کے مفادات کے لئے اپنے مفادات کو کیسے نظر انداز کرے گا، بلکہ ایسے لوگ اگر کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو بھی مطلب پرستی کی سوچ سے اوپر نہیں اٹھ سکتے، پھر اسی سے اختلافات اور بدگمانیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

            دوسری وجہ یہ ہے کہ جنت کی طلب اور رضائے الہی کا مقصد یقینی ہے، رضائے الہی کے لئے جو بھی عمل کیا جائے گا اس کا فائدہ  یعنی رضائے الہی اور ثواب ضرور ملے گا، اور دنیا کا کوئی  بھی فائدہ یقینی نہیں ہے، ہوسکتا ہے محنت کا پھل ملے ، اور ہوسکتا ہے کہ کوئی بھی نتیجہ حاصل نہ ہو، جب بندہ یقینی فائدہ کو پیش نظر رکھتا ہے تو وہ عزم و ہمت سے بھر جاتا ہے، ہمیشہ پر امید رہ کر جد و جہد جاری رکھتا ہے، اور دنیا کا فائدہ مشکوک ہے، اس کو سامنے رکھنے سے مایوسی  پیدا ہوتی ہے، عزم و ہمت میں کمی آتی ہے، اور لازمی طور پر جد و جہد میں سستی آجاتی ہے۔

بے شمار مشکلات کا آنا

            چوتھی وجہ کامیابی اور ترقی کی راہ میں بے شمار مشکلات آتی ہیں، اور سخت سے رکاوٹیں سامنے آتی رہتی ہیں، اکثر ان مشکلات و موانع کے سامنے آدمی ہمت ہار جاتا ہے، اسی لئے کسی بھی کام کی ابتدا میں کئی لوگ ساتھ ہولیتے ہیں، اور جیسے جیسے مشکلات بڑھتی ہیں لوگ کم ہوتے رہتے ہیں، پھر یا تو پوری جماعت ہی ختم ہوجاتی ہے، یا اگر کچھ لوگ باقی رہتے ہیں تو چند معمولی کاموں پر قناعت کر لیتے ہیں، اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لئے افراد کی تربیت بہت زیادہ ضروری ہے۔ مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے طاقتور چیز تعلق مع اللہ اور اصلاح باطن ہے، اس کے بغیر نہ بہادری ہے، نہ ہمت، نہ اتفاق و اتحاد ممکن ہے، نہ قربانی و مجاہدہ ممکن ہے، نہ دنیا سے بے رغبتی ممکن ہے، اور نہ موت سے محبت پیدا ہوسکتی ہے۔ 

شیخ عبد الحمید بن بادیس ؒ نے جب انقلاب کا کام شروع کیا تو اصلاح و تزکیہ کی طرف بہت ہی زیادہ توجہ دی ، یہاں تک کہ لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ تو کوئی انقلابی تحریک نہیں، بلکہ محدود تحریک ہے، لیکن بعد لوگوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے تربیت یافتہ افراد سے وہ  انقلاب آیا جو کسی اور راستہ سے ممکن نہیں تھا۔

کامیابی کے بعد

پانچویں وجہ قومی اور ملی اور سماجی کاموں میں اگر کسی طرح کی کامیابی ملتی ہے تو اس کو ہضم کرنے کے لئے   بھی تربیت ضروری ہے، اگر تربیت میں کمی رہ جاتی ہے تو کامیابی کے بعد رویے تبدیل ہوجاتے ہیں،عدل و انصاف کا دامن چھوٹ جاتا ہے،  امانت داری اور اعتدال کا لحاظ ختم ہوجاتا ہے، کامیابی پانے کے لئے جتنی قربانی  اور صبر و استقلال کی ضرورت ہے اتنی ہی کامیابی کو نبھانے کے لئے ہے۔ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ بے پناہ قربانیوں کے بعد کامیابی ملی ، لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے وہ کامیابی ان کے لئے ایک آفت بن گئی، اور کئی طرح کی نئی مصیبتیں کھڑی ہوگئیں۔

دینی تربیت کا فائدہ

چھٹی وجہ دینی تربیت اور روحانی ترقی  کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی مدد شامل حال ہوتی ہے، جب اللہ تعالی کی طرف بندہ کا رجوع بڑھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے احکام کا ہر جگہ لحاظ رکھا جاتا ہے، اور اسی کی رضامندی کی طلب میں ساری دوڑ بھاگ ہوجاتی ہے تو پھر اللہ تعالی کی غیبی مدد اس کے ساتھ ہوجاتی ہے، اور یہ کامیابی کا سب سے بڑا اور سب سے طاقتور ذریعہ ہے،

صحابہ کرام ؓ کی حیرت انگیز  پے درپے کامیابیوں کے پیچھے اللہ تعالی کی مدد کارفرما تھی، احد اور حنین میں بعض لغزشوں کی وجہ سے اللہ تعالی کی مدد ہٹ گئی، اور جیسے ہی اللہ تعالی کی مدد ہٹی مسلمانوں میں افراتفری پھیل گئی۔

عوام کے اعتماد کی اہمیت

ساتویں وجہ : اجتماعی کاموں کے لئے عوام کا اعتماد بہت زیادہ ضروری ہے، عوام کے اعتماد کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہے، اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے اعلی اخلاق اور حقیقی دینداری سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہے، تعلق مع اللہ ایسی کشش ہے کہ لوگ خود بہ خود ایسے آدمی کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔

افراد سازی کی اہمیت

            مذکورہ وجوہات سے یہ بات کھل  کر سامنے آگئی کہ کسی بھی قومی ، ملی  اور سماجی کام کی کامیابی کے لئے سب سے پہلے افراد سازی کا عمل ضروری ہے، اگر جلد بازی میں اس مرحلہ عبور کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ کام زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گا، اور کوئی بڑے نتائج حاصل نہیں کر پائے گا۔

مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ نے اس پر  ایک  بصیرت افروز تحریر قلم بند کی ہے ، آپ لکھتے ہیں:

            یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سر فروشی و جانبازی ، جہاد و قربانی اور تجدید و انقلاب و فتح و تسخیر کے لئے جس روحانی و قلبی قوت، جس وجاہت و شخصیت ، جس اخلاص للہیت ، جس جذب و کشش اور جس حوصلہ اور ہمت کی ضرورت ہے وہ بسا اوقات روحانی ترقی ، صفائی باطن ، تہذیب نفس ، ریاضت و عبادت کے بغیر نہیں پیدا ہوتی ، اس لئے آپ دیکھیں گے کہ جنہوں نے اسلام میں مجددانہ یا مجاہدانہ کارنامے انجام دیئے ہیں ، ان میں سے اکثر افراد روحانی حیثیت سے بلند مقام رکھتے تھے، ان آخری صدیوں پر نظر ڈالئے ، امیر عبد القادر الجزائزی ، مجاہد جزائر، محمد احمد السودانی (مہدی سوڈانی) سید احمد شریف السنوسی (امام سنوسی) کو آپ اس میدان کا مرد پائیں گے، حضرت سید احمد ایک مجاہد قائد کے علاوہ اور اس سے پہلے ایک عزیز القدر روحانی پیشوا اور بے مثل شیخ الطریقت تھے، حقیقت یہ ہے کہ مجاہدات و ریاضیات ، تزکیہ نفس اور قرب الہی سے عشق الہی اور جذب و شوق کا جو مرتبہ حاصل ہوتا ہےاس میں ہر رونگٹے سے یہی آواز آتی ہے،

ہمارے پاس ہے کیا جو فدا کریں تجھ پر

مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں

اس لئے روحانی ترقی اور کمال باطنی کا آخری اور لازمی درجہ شوق شہادت ہے، اور مجاہدے کی تکمیل جہاد ہے۔

            انسانی زندگی کا طویل تجربہ ہے محض معلومات و تحقیقات اور مجرد قوانین و ضوابط اور صرف نظم و ضبط ، سر فروشی و جانبازی بلکہ سہل تر ایثار و قربانی کی طاقت و آمادگی پیدا کرنے کے لئے بھی کافی نہیں ہے، اس کے لئے اس سے کہیں زیادہ گہرے اور طاقتوار تعلق اور ایک ایسی روحانی لالچ اور غیر مادی فائدہ کے یقین کی ضرورت ہےکہ اس کے مقابلہ میں زندگی بار دوش معلوم ہونے لگے۔

            اس لئے کم سے کم اسلام کی تاریخ میں ہر مجاہدانہ تحریک کے سرے پر ایک ایسی شخصیت نظر آتی ہے جس نے اپنے حلقۂ مجاہدین میں یقین و محبت کی یہی روح پھونک دی تھی، اور اپنے یقین و محبت کو سینکڑوں اور ہزاروں انسانوں تک منتقل کرکے ان کے لئے تن آسانی اور راحت طلبی کی زندگی دشوار، اور پامردی اور شہادت کی موت آسان و خوشگوار بنا دی تھی، اور ان کے لئے جینا اتنا ہی مشکل ہوگیا تھا، جتنا دوسروں کے لئے مرنا مشکل تھا، یہی سر حلقہ اور امام وقت ہے، جس کے متعلق اقبال مرحوم نے کہا ہے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق

جو تجھے حاضر  و موجود سے بیزار کرے

موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست

زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار  کرے

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے

فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

            انیسوی صدی عیسوی میں جب عالم اسلام پر فرنگی ’’تاتاریوں ‘‘ یا مجاہدین صلیب (عیسائیوں ) کی یورش ہوئی تو ان کے مقابلہ میں عالم اسلام کے ہر گوشہ میں جو مردان کار سر سے  کفن باندھ کر میدان میں آئے ، وہ اکثر و بیشتر شیوخ طریقت اور اصحاب سلسلہ بزرگ تھے، جن کے تزکیہ نفس اور سلوک راہ نبوت نے ان میں دین کی حمیت ، کفر کی نفرت ، دنیا کی حقارت اور شہادت کی موت کی قیمت دوسروں سے زیادہ پیدا کردی تھی۔

الجزائر (مغرب) میں امیر عبد القادر نے  فرانسیسیوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا، اور ۱۸۳۲ ء سے ۱۸۴۷ء تک نہ خود چین سے بیٹھیں، نہ فرانسیسیوں کو چین سے بیٹھنے دیا، مغربی مؤرخین نے ان کی شجاعت ، عدل و انصاف ، نرمی و مہربانی اور علمی لیاقت کی تعریف کی ہے۔یہ مجاہد ذوقا و عملا صوفی اور شیخ طریقت تھے۔

 ۱۸۱۳ء میں طاغستان پر جب روسیوں کا تسلط ہوا تو ان کا مقابلہ کرنے والے نقشبندی شیوخ تھے، شیخ شامل نے ۲۵ برس روس کا مقابلہ کیا اور مختلف معرکوں میں ان پر زبردست فتح حاصل کی، روسی ان کی شوکت اور شجاعت سے مرعوب تھے، انہوں نے بھی مشیخیت  چھوڑ کر امارت ہاتھ میں لی تھی۔تصوف و جہاد کی جامعیت کی درخشاں مثال سیدی احمد  الشریف السنوسی کی ہے، اطالویوی نے برقہ و طرابلس کی فتح کے لئے پندرہ دن کا اندازہ لگایا تھا، نو آبادیوں اور بادیوں کی جنگ کا تجربہ رکھنے والے انگریز قائدین نے اس پر تنقید کی اور کہا کہ یہ اطالویویں کی ناتجربہ کاری ہے، اس مہم میں ممکن ہے تین مہینے لگ جائیں، لیکن نہ پندرہ دن ، نہ تین مہینے ، اس جنگ میں پورے تیرہ برس لگ گئےاور اطالوی پھر بھی اس علاقہ کو مکمل طریقہ پر سر نہ کر سکے، یہ سنوسی درویشوں اور ان کے شیخ طریقت سیدی احمد الشریف کی مجاہدانہ جد و جہد تھی، جس نے اطالیہ کو پندرہ سال تک اس علاقے میں قدم جمانے نہیں دیئے۔

تصوف و جہاد کی جامعیت کی درخشاں مثال سیدی احمد  الشریف السنوسی کی ہے، اطالویوی نے برقہ و طرابلس کی فتح کے لئے پندرہ دن کا اندازہ لگایا تھا، نو آبادیوں اور بادیوں کی جنگ کا تجربہ رکھنے والے انگریز قائدین نے اس پر تنقید کی اور کہا کہ یہ اطالویویں کی ناتجربہ کاری ہے، اس مہم میں ممکن ہے تین مہینے لگ جائیں، لیکن نہ پندرہ دن ، نہ تین مہینے ، اس جنگ میں پورے تیرہ برس لگ گئےاور اطالوی پھر بھی اس علاقہ کو مکمل طریقہ پر سر نہ کر سکے، یہ سنوسی درویشوں اور ان کے شیخ طریقت سیدی احمد الشریف کی مجاہدانہ جد و جہد تھی، جس نے اطالیہ کو پندرہ سال تک اس علاقے میں قدم جمانے نہیں دیئے۔

            مجدد الف ثانی ، سید جمال الدین افغانی ، شیخ محمد عبدہ، شیخ حسن البنا شہید ، سید احمد شہی د ؒ ، اور ان کے جانشیں، حاجی امداد اللہ ، حضرت حافظ ضامن شہید، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا محمود حسن گنگوہی ، حضرات بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ (تصوف کیا ہے)

افراد سازی کی اہمیت و ضرورت سے زبانی طور پر تو کوئی انکار نہیں کرتا ہے، لیکن عملی طور پر لوگوں نے اس اہم اور ضروری  کام کو پس پشت ڈال دیا ہے،  عملی منصوبوں میں کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ہوتا،  اگر کہیں افراد سازی اور تربیت کا خانہ رکھا بھی جاتا ہے تو برائے نام ، دینی تربیت اور روحانی ترقی کے لئے  جتنا وقت درکار ہوتا  ہے، اور جتنی توجہ کی ضرورت ہوتی  ہے ہم اتنی توجہ اور وقت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے