بسم اللہ الرحمن الرحیم
بچوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اور ان کے مستقبل کو کامیاب بنانے کے لئے بچوں کو بہترین تعلیم دلانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور اس کے لئے اکثر ماں باپ فکر کرتے ہیں، بلا شبہ کامیابی اور ترقی کے لئےتعلیم ضروری ہے، لیکن صرف تعلیم کافی نہیں ہے، بلکہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ضروری ہے، اگر تعلیم بہت اعلی ہے ، لیکن تربیت میں کمی ہے تو کامیابی اور ترقی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں
جیسے ایک آدمی نے بہت اچھی تعلیم پائی ہے، اعلی ڈگریاں حاصل کی ہیں، لیکن تربیت میں کمی کی وجہ سے اس کے اندر برداشت کی طاقت نہیں ہے، چھوٹی چھوٹی بات میں جذبات میں آ جاتا ہے، کسی سے بھی تعلقات بگاڑ دیتا ہے، یا پھر کاموں میں چستی نہیں ہے، بلکہ کاموں کو ٹالنے کی عادت ہے، یا دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں ہے، اس طرح کی بے شمار اخلاقی خرابیوں میں سے کوئی دو تین خرابیاں اس کے اندر رہ گئی تو بہت اعلی تعلیم کے باوجود زندگی میں کامیابی اور ترقی حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا،
کوئی تاجر اپنی تجارت میں ناکام ہوتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہوتی کہ اس کے پاس معلومات کی کمی تھی، بلکہ کئی بار یہ وجہ بھی ہوتی ہے کہ تربیت میں کمی ہوتی ہے، برداشت کی طاقت نہیں ہوتی، بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہوتا، ٹائم ٹیبل نہیں ہوتا، آرام کی عادت بن جاتی ہے ، دوسروں کے بھروسے پر چھوڑ دیا جاتا ہے، خلاصہ یہ کہ جس طرح تعلیم کی کمی سے کامیابی اور ترقی کی منزل مشکل ہوجاتی ہے، اسی طرح تربیت کی کمی سے بھی کامیابی اور ترقی کی منزل مشکل ہوجاتی ہے، اس لئے جو ماں باپ بھی اپنے بچوں کو مستقبل میں خوش دیکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ جتنی کوشش تعلیم پر کریں اتنی ہی کوشش تربیت پر بھی کریں، تربیت کو کوئی دو نمبر کی چیز نہ سمجھیں۔
بچپن کی تربیت کا یہ فائدہ ہے کہ چھوٹی عمر میں اچھی تربیت کرنا، اور اچھی عادتیں پروان چڑھاناآسان ہوتا ہے، نازک پودے کی طرح بچے کو جس طرح موڑنا چاہیں موڑ سکتے ہیں، اور دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہےکہ بچپن کی تربیت کا اثر پوری زندگی رہتا ہے۔

بچوں کی تربیت کے 9 رہنما اصول
یہاں ۹ باتیں پیش کی جاتی ہیں ، اپنے بچوں میں ان کی عادت بنانے کی کوشش کریں، یہ چھوٹے کام ان کی تربیت میں بہترین اثر پیدا کریں گے۔ اور بچوں کی شخصیت اور پرسنالٹی میں نکھار پیدا ہوگا۔
بچوں کو شکریہ ادا کرنے اور معافی مانگنے کی تربیت دینا
(۱) نمبر ایک بچوں کے اندر موقع محل کے اعتبار سے جوابی الفاظ کہنے کی عادت ڈالیں، جیسے کہ احسان کے وقت جزاک اللہ خیرا، شکریہ ، تھینک یو، اسی طرح کوئی غلطی ہوجانے پر دوسروں سے سوری کہے یا اور کوئی معافی کے الفاظ استعمال کریں، مثلا مجھ سے غلطی ہوگئی، یا معافی چاہتا ہوں، گھر میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت سلام کہنے کی عادت ڈالیں، اسی طرح ان شاء اللہ ، ماشاء اللہ ، سبحان اللہ وغیرہ الفاظ موقع محل کے اعتبار سے کہنا سکھائیں، اور ان الفاظ کو ان کی عادت میں شامل کرنے کی کوشش کریں، یہ الفاظ بچوں کی نفسیاتی میں اور اخلاقی تربیت میں بہت گہرا اثر رکھتے ہیں۔ اور بچوں کی شخصیت میں کشش پیدا ہوتی ہے۔
یہاں ایک بات یاد رکھیں کہ جن الفاظ کا مقصد سامنے والے کو اپنا تاثر دکھانا ہوتا ہے وہاں اسلامی الفاظ کے ساتھ ان الفاظ کو بھی استعمال کر سکتے ہیں جن سے سامنے والا مانوس ہے، مثلا کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اسلام نے جزاک اللہ خیرا کے الفاظ سکھائے ہیں، یہ الفاظ بہت ہی خوبصورت اور معنی دار ہیں، لیکن کبھی کبھی سامنے والا اسلامی تعلیم و تربیت سے دوری کی وجہ سے ان الفاظ میں کوئی تاثر محسوس نہیں کرتا ہے، اور ان کو ایسے الفاظ سے تسلی نہیں ہوتی ہے، تو ایسے وقت میں دونوں الفاظ استعمال کریں، پہلے جزاک اللہ خیرا کہے، اور اس کے ساتھ تھینک یو وغیرہ بھی کہے، بچوں کو اس طرح دونوں الفاظ استعمال کرنا سکھائیں۔
جھگڑے خود سلجھانے کی تربیت کرنا
(۲)نمبر دو
اکثر بچوں میں پڑوس کے دوستوں سے یا سکول کے ساتھیوں سے لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، ان جھگڑوں میں کئی بچے اپنے والدین کو شکایت کرکے ان اپنے بچاؤ کے لئے یا بدلہ لینے کے لئے بلاتے ہیں۔ اور ان سے مدد کی امید کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر والدین کو ان کے مسائل میں دخل دینے کے بجائے ان کو سمجھانا چاہئے کہ تم کو اپنی لڑائی خود لڑنی پڑے گی، اور اپنے مسائل کا حل خود نکالنا ہوگا، زندگی میں ہمیشہ مشکلات و مسائل آتے رہیں گے، اور زندگی بھر تمہارے ساتھ کوئی بھی نہیں رہے گا، اس لئے دوسروں سے امید لگانا مسائل کا حل نہیں ہے، چھوٹے چھوٹے مسائل سے مقابلہ کرنے کی عادت ان کو اپنے لئے لڑنا سکھائے گی۔ ایسے موقعوں پر ان کو مشورہ دے سکتے ہیں ، یا اپنے بچوں سے کہیں کہ لڑائی تو تم کو لڑنی ہوگی البتہ اگر تم اس کے متعلق ہم سے مشورہ طلب کروگے تو ہم تم کو مشورہ دیں گے ۔
اپنے کام خود کرنے کی تربیت کرنا
(۳) نمبر تین
گھر کے چھوٹے موٹے کام بچوں سے کروائیں، کچھ کاموں کی ذمہ داری ان کو دے دیں، جیسے سونے کے بعد اپنی چادر خود سمیٹنا، کھانے کے بعد اپنے برتن خود اٹھانا، کھانے کے لئے دسترخوان بچھانا، وغیرہ، اس کام خود کرنے کی عادت بنے گی۔
بچوں کو صبر کرنے کی تربیت دینا
(۴) نمبر چار
بچوں کو صبر کرنا اور برداشت کرنا سکھائیں، اور اس کے لئے ان کی تمام خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش نہ کریں، بچوں کی تمام خواہشات پوری کرنے سے بچوں کے اندر سے صبر اور برداشت کا مادہ ختم ہوجاتا ہے، پھر وہ بچے مشکلات و مسائل میں بے چین ہوجاتے ہیں، کنٹرول کھو دیتے ہیں، اس لئے اگر بچوں کی مانگیں پوری کرنے کی طاقت ہو تو بھی ان کی بعض مانگوں کو پورا مت کرو، اور ان کو یہ سکھاؤ کہ زندگی میں خواہش کی تمام چیزیں نہیں ملتی ہیں، خواہش اور تمنا کا پورا نہ ہونا بھی ایک نارمل بات ہے، اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
بچوں کو میزبانی کرنے کی تربیت دینا
(۵) نمبر پانچ
مہمانوں کے آنے پر ان سے کس طرح ملنا چاہئے، ان سے کس طرح بات کرنی چاہئے یہ ان کو سکھائیں، اور پھر ان کاموں کے انجام دینے کا پابند بنائیں، اگر بچہ سمجھدار ہے تو اس کو یہ بتائیں کہ مہمان کے آنے پر ان کو پانی پیش کریں، ان کے پاس تھوڑی دیر بیٹھیں، ان سے باتیں کریں۔ ان کے سامنے خوشی کا اظہار کریں، اس سے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی عادت بنے گی، اسی طرح کبھی کبھی اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے بھیجیں۔
بچوں کودوسرں کی مدد کرنے کی تربیت دینا
(۶) نمبر چھ
بچوں کو یہ بھی سکھائیں کہ وہ دوسروں کا تعاون کریں ، دوسروں کی مدد کریں، کسی ضرورت مند کو دیکھے اور وہ ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں تو ضرور مدد کریں، پڑوسیوں کے ، اور رشتہ داروں کے چھوٹے موٹے کاموں میں مدد کرنے کی ترغیب دیں، بچوں کے اندر خدمت کا جذبہ پیدا کریں، دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنا سکھائیں۔
بچوں کو فضول خرچی سے بچنے کی تربیت دینا
(۷) نمبر سات
پیسوں کی بچت کرنا ، اور فضول خرچی سے بچنا سکھائیں ، اس کے لئے کچھ رقم ان کو ہدیہ کردے ، اور یہ کہے کہ یہ پیسے تمہارے ہیں، تم ان کو جو چاہو کر سکتے ہو، لیکن تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ ان کو حفاظت سے رکھ دو، یا پھر ایک ہفتے کے پیسے ایک ساتھ ان کو دے دیں، اور یہ کہیں کہ تمہارے ایک ہفتے کے پیسے ہیں ، اب چاہے تم ان کو ایک دن میں ختم کرو، یا ایک ہفتے میں یہ تمہاری مرضی ہے، پھر ان کی نگرانی کریں، اگر وہ ایک ہفتے سے پہلے پیسے ختم کردیتے ہیں تو ان کو سمجھائیں کہ اس طرح نہیں کرنا چاہئے، سمجھانے کے ساتھ شروع میں یہ بھی کر سکتے ہیں کہ بچوں سے کہیں کہ اگر ہفتے کے بعد تماہرے پاس کچھ پیسے بچ گئے تو تم کو باقی رقم کے برابر انعام ملے گا، مثلا ہفتہ کے بعد اس نے دس روپیے بچائیں تو دس روپئے اس کو انعام ملے گا، اس طرح شروع میں اس کو عادت ڈالنے میں مدد کی جائے۔
بچوں کو سوال کرنے کی تربیت دینا
(۸) نمبر آٹھ
بچوں میں سوال کرنے کی عادت پیدا کریں، ان کو تاکید کریں کہ روز مرہ کی زندگی کے متعلق وہ سوال کریں، مدرسہ اور اسکول کی تعلیم کے متعلق بھی سوالات کریں، اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو بھی سوال کرے ، اور سوال کرنے کے لئے بھی نئی نئی باتوں میں غور و فکر کریں، اگر ہو سکے تو ان کو پابند بنائیں کہ روزانہ تین نئے سوال کرنا ضروری ہے، سوالات کرنے سے غور و فکر کی عادت بنتی ہے، دماغ سست نہیں رہتا ہے، بلکہ چوکنا رہتا ہے، اور دماغ کا اچھا استعمال ہوتا ہے، دماغ کی ورزش ہوتی ہے۔
یہ کل آٹھ باتیں ہوئیں، یہ ساری چیزیں بچوں کی تربیت میں بہت بڑا رول ادا کرتی ہیں۔ اگر یہ ساری باتیں ایک ساتھ عمل میں لانا مشکل ہو تو ان میں جو آسان ہو ان کو عمل میں لے آنا چاہئے۔
بچوں کو سلیقہ سے زندگی بسر کرنے کی تربیت دینا
(۹)
بچوں کو اپنے سامان کی حفاظت ، ان کی صفائی رکھنا ، اور ان کو ترتیب اور سلیقہ سے رکھنا سکھائیں، جیسے اسکول اور مدرسہ کی چیزوں کو اور کھیلنے کی چیزوں کو ٹھکانے پر رکھنے کا پابند بنائیں، اسی طرح جوتے چپل ، اور نکالے ہوئے میلے کپڑے ٹھکانے پر رکھنے کا پابند بنائیں، اور ان کے بارے میں ان کی برابرنگرانی کریں، اس سے صفائی اور اصول پسندی کا مزاج بنے گا،

0 Comments