فن حدیث کے ضروری مباحث قسط (۲۲)

فن حدیث کے ضروری مباحث قسط (۲۲)

حل متن حدیث کے لیے ضروری امور

  • (۱)   الفاظ حدیث کو درستگی کے ساتھ پڑھنا
  • (۲)   غریب الحدیث (مشکل اور نامانوس الفاظ )کے معانی کی تحقیق
  • (۳)   سبب ورود الحدیث (حدیث کا شان نزول اور پس منظر )اگر ہوتو اس کی وضاحت
  • (٤)   حدیث میں اگر کوئی نام مہمل یا مبہم ہوتو اس کی تعیین کرنا
  • (۵)   حدیث کسی شہر یا ملک کا نام ہوتو اس کی تحقیق اور جدید نام معلوم کرنے کی کوشش
  • (٦)   حدیث میں اگر اوزان (صاع ،مد ،درہم ،دینار )کا ذکر ہوتو اس کا جدید اوزان سے مقارنہ
  • (۷)   تخریج حدیث کے ذریعے حدیث کا جامع متن تلاش کرنا اور الفاظ حدیث کے درمیان مقارنہ
  • (۸)   جس کتاب کی حدیث ہے اس کتاب کے مؤلف کے منہج کی وضاحت
  • (۹)   ترجمۃ الباب اور حدیث کے درمیان مطابقت
  • (۱۰)   مختلف الحدیث ومشکل (متعارض ومشکل )نصوص کا حل
  • (۱۱)   ناسخ ومنسوخ کی تحقیق
  • (۱۲)   فقہ الحدیث (حدیث سے مستنبط ہونے والے احکام ومسائل کا بیان )
  • (۱۳)   مذاہب ائمہ اور ان کے دلائل
  • (۱٤)   حدیث سے مستفاد دعوتی وتربیتی نکتے اور اشارات

اب ان تمام امور کو  اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔

  (١) الفاظِ حدیث کو درستگی کے ساتھ پڑھنا   

الفاظ حدیث کے ضبط میں غلطی سے اجتناب کرنا یہ طبعاً، عقلاً اور شرعاً مطلوب ہے، جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ الفاظ حدیث میں غلطی کرنے والے پر اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ   ”من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار“   کی سخت وعید میں داخل ہوجائے .

جیسا کہ امام اصمعیؒ نے فرمایا ہے کہ   ”إن أخوف ماأخاف علی طالب العلم إذا لم یکن یعرف النحو أن یدخل فی جملۃ قوله ﷺ من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار“   سب سے زیادہ طالب حدیث پر اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ نحو سے ناواقفیت کی بناء پر الفاظ حدیث کو غلط سلط پڑھ دے اور من کذب ۔۔۔۔ کی شدید وعید میں داخل ہوجائے۔

وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ لحن وغلطی سے پاک صاف تھے ، اب کوئی آپ ﷺ سے نقل کرتے ہوئے  حدیث بیان کرے اور لحن وغلطی کا شکار ہوجائے تو گویا اس نے آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کی کہ آپ ﷺ نعوذ بالله لحان تھے، اور آپ ﷺ نے اسی طرح لحن کے ساتھ بیان فرمایا تھا۔ (تدریب الراوی  :  ۲/ ۹۸)

خطیب بغدادیؒ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ امام شعبہؒ نے فرمایا کہ   ”من طلب الحدیث ولم یبصر العربیۃ کمثل رجل علیه برنس ولیس له رأس“   کہ جو شخص علم حدیث کو طلب کرے لیکن عربی زبان میں مہارت نہ ہو تو وہ آدمی ایسا ہے کہ برنس تو ہو لیکن سر ہی نہ ہو۔

نوٹ : برنس ایسے ثوب کو کہتے ہیں جس میں سر ڈھانپنے کی ٹوپی بھی اس کے ساتھ سلی ہوئی ہوتی ہے ، اب اگر ایسا برنس اوڑھ رکھا ہو جس میں سے ٹوپی (یعنی اس کا سر) غائب ہو تو وہ عیب دار اور بے کار ہوگا ۔

رین کوٹ کا اوپر حصہ تقریبا برنس  کے مشابہ ہے ۔

حماد بن سلمہ فرماتے ہیں   ”مثل الذی یطلب الحدیث ولا یعرف النحو مثل الحمار علیه مخلاۃ ولا شعیر فیه“   اس آدمی کی مثال جو حدیث کو طلب کرتا ہو لیکن نحو سے جاہل ہو وہ اس گدھے کی طرح ہے جس کی پشت پر تھیلا تو رکھا ہوا ہو لیکن اس میں اناج نہ ہو۔

 کبھی الفاظ حدیث صحیح نہ پڑھنے کی وجہ سے معنی بدل کرکچھ کا کچھ ہو جاتا ہے اور انتہائی تعجب خیز اور مضحکہ خیز نتائج رونما ہوتے ہیں  جیسے نصاری نے ایک لفظ کے تلفظ میں غلطی کی اور مطلب غلط سمجھ کر کافر ہوگئے ، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انجیل میں حضرت عیسیؑ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:   أنت نبيي ولّدتک من البتول   کہ آپ میرے نبی ہیں، میں نے آپ کو حضرت مریم سے پیدا کیا ہے۔ نصاری اس میں زبردست تصحیف کے شکار ہوگئے اور انہوں نے پڑھا   أنت بنيي ولدتک من البتول   ، نبيي کے بجائے  بنيي اور ولدتک بتشدید اللام کے بجائے ولدتک بتخفیف اللام پڑھ دیا،مطلب یہ ہوگا کہ آپ میرے بیٹے ہیں میں نے آپ کو بتول سے جنا ہے۔

اسی طرح سب سے پہلے جو فتنہ اسلام میں وقوع پذیر ہوا اس کا سبب بھی یہی تصحیف ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اس آدمی کے متعلق اہل مصر کولکھا جس کو آپ نے امیر بناکر بھیجا تھا ۔   إذا جاءکم فاقبلوہ    کہ جب امیر تمہارے پاس آجائے تو قبول کرلینا!

 اہل مصر نے غلط پڑھ دیا اور بجائے   فاقبلوا   کہ   فاقتلوہ   پڑھ دیا،اس کے بعد جو کچھ واقع ہوا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ (تدریب ٢/٦٣) 

ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں ، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا  :   یحمل ھذا العلم من کل خلف عدوله ینفون عنه تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاهلین   آئندہ آنے والے لوگوں میں سے اچھے لوگ (معتمد اور ثقہ ) اس کتاب کے علم کو حاصل کریں گے اور پھر اس علم کے ذریعے غلو کرنے والوں کی تحریف ختم کریں گے اور غلط کاروں کی غلطیوں کو رفع کریں گے اور آیات قرآنی واحادیث میں کی گئی جاہلوں کی تاویلوں کو رد کریں گے۔

حدیث میں لفظ   خلف بفتح اللام   ہے جس کے معنی اچھے جانشین کے ہے، لیکن بعض لوگوں نے اس لفظ کو   بسکون اللام  خلْف   پڑھ دیا ، جس کے معنی برے جانشین کے ہے.

اس معمولی غلطی کی وجہ سے معنی کچھ کا کچھ ہوگیا، اور منشائے نبوی ﷺ فوت ہوگیا۔ اس لیے کہ آپ کا منشاء حاملین علم کی تعریف کرنا تھا نہ کہ ان کی مذمت! لیکن   خلف بسکون اللام   پڑھنے کی وجہ سے حاملینِ علم کی مذمت ہوگئی۔

 ایک اور دلچسپ مثال ملاحظہ فرمائیں کسی خلیفہ نے اپنے عامل کو لکھ بھیجا    أحص المخنثین   کہ اپنے شہر کے مخنثین کو شمار کرلو !لیکن اس عامل نے بجائے   أحص (بالحاء المھمله)   کہ   أخص (بالخاء المعجمہ)   پڑھ دیا اور غلط مطلب سمجھ کر سارے مخنثین کو خصی کردیا ۔ (تدریب  ۲/ ٦۵)

علمائے متقدمین کے نزدیک تصحیح الفاظ کی بہت زیادہ اہمیت تھی، وہ حضرات ان لوگوں سے سخت ناراض ہوتے تھے جو تصحیح الفاظ میں گڑ بڑ کرتے تھے۔

علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے وہ لوگ تیر اندازی کی مشق کررہے تھے، لیکن اچھی طرح تیر اندازی نہیں کررہے تھے ، ان لوگوں نے حضرت عمرؓ کو دیکھ کر عرض کیا   یاأمیر المؤمنین نحن قوم متعلمین   ۔بجائے   نحن قوم متعلمون   کہنے کے   نحن قوم متعلمین   کہہ دیاکہ ہم تو ابھی تیر اندازی سیکھ رہے ہیں ماہر فن نہیں ہے، اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تمہارا دورانِ گفتگو غلطی کرنا یہ تیراندازی میں غلطی کرنے کے مقابلہ میں خطرناک ہے، اللہ تعالی اس آدمی پر رحم کرے جس نے اپنی زبان کی اصلاح کرلی۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنے صاحبزادہ کو الفاظ میں غلطی کا ارتکاب کرنے پر مارا کرتے تھے۔

حضرت حسن بصریؒ سے کسی نے عرض کیا کہ ہمارا امام پڑھنے میں غلطی کرتا ہے کیا کیا جائے؟  حضرت حسن ؒ نے فرمایا کہ : اسے امامت سے الگ کردو۔

حماد بن سلمہؒ فرماتے ہیں کہ : جوآدمی مجھ سے احادیث بیان کرنے میں غلطی کریں وہ مجھ سے حدیث بیان نہ کریں۔ (غریب الحدیث للخطابی  :  ۱/ ٦۰)

نیز علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ جب شریعت کے علوم کا دارومدار عربی زبان پر ہے اور شریعت کےعلوم پر مہارت بغیر عربی زبان کےحاصل نہیں ہو سکتی تو طالب حدیث پر ضروری ہے کہ ابتداء میں اپنی تمام تر توجہ عربی زبان کی اصلاح ودرستگی کی طرف مرکوز کریں پھر عربی زبان میں بھی بہت سارے فنون ہیں ان سب میں کمال حاصل کرنا دشوار بھی ہے، اس لیے کم از کم تین باتوں کو جاننا بہت ضروری ہے، اسماء، افعال اور اعراب کی وجوہات ۔

نیز اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے احادیث مبارکہ کو یاد رکھنے اور اس کی تبلیغ واشاعت کرنے والے کے حق میں جو دعا فرمائی ہے اس میں   وأداھا کما سمعھا   کی قید لگائی، کہ جیسا سنا  من وعن ویسا ہی پہنچادیا.

اب جو آدمی عربی زبان میں ماہر نہ ہوگا تو بات کو من وعن کیسے پہنچائےگا ؟ بجائے دعا کے مستحق ہونےکے   من کذب علی   کی بددعاکا مصداق بن جائےگا۔

اس لیےطالب علم حدیث چاہیے کہ وہ الفاظ حدیث کی تصحیح کے لیے نحو وصرف  میں بھی مہارت حاصل کریں ۔

غریب الحدیث (مشکل اور نامانوس الفاظ) کے معانی کی تحقیق   

الفاظ حدیث کی تصحیح کے لیے طالب علم حدیث کے لیے نحو وصرف کے ساتھ ساتھ   کتب غریب الحدیث   کی مراجعت نہایت ضروری ہے،

  غریب الحدیث   متن میں پائےجانے والے ان مشکل الفاظ کو کہتے ہیں جن کا معنی ومراد لفظ کے قلیل الاستعمال ہونے یا مختلف معانی کا احتمال رکھنے کی وجہ سے واضح نہ ہو

کتب غریب الحدیث میں الفاظ کے معانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ محتاج ضبط الفاظ کا ضبط بھی بیان کردیا جاتا ہے، اس فن میں لکھی گئی چند کتابوں کا اجمالی تذکرہ پیش خدمت ہے۔

  (۱)   غریب الحدیث

: ابو عبید قاسم بن سلام هروی (م:٢٢٤)

  (۲)   غریب الحدیث  :  ابو عمرو شمر بن حمدویہ  (م: ٢٥٦)

   (٣)   کتاب الدلائل   

 : ابو محمد قاسم بن ثابت بن حزم سرقسطی (م:٣٢٠)

  (٤)    غریب الحدیث       

 : ابواسحاق ابراهیم بن اسحاق الحربی البغدادی (م: ۲۸۵)‍

  (٥)   غریب الحدیث         

  : ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبه دینوری  (م:٢٧٦)

  (٦)   غریب الحدیث  

  : ابوسلیمان حمد بن محمد خطابی (م :۳۸۸)

  (٧)   کتاب الغریبین  ابوعبیدہ احمد بن محمد بن محمد عبدی (م: ٤۰۱)

  (٨)   مجمع الغرائب  :  عبدالغافر فارسی  ( م:۵۲۹)

  (٩)   الفائق فی غریب الحدیث :  جار اللہ محمود بن عمر زمخشری (م:۸ ۵۳)

  (١٠)   مطالع الأنوار علی صحاح الآثار : ابن قرقول(م: ٥٦٩)

  (١١)   المجموع المغیث في غریبی القراٰن والحدیث

 : حافظ ابو موسیٰ محمد بن ابی بکر بن ابی عیسیٰ المدینی اصفھانی (م : ۵۸۱)

  (١٢)    النھایة فی غریب الحدیث : ابو السعادات مبارک بن محمد بن محمدابن اثیر جزریؒ   (م: ٦٠٦)

  (١٣)   تقريب النهاية في غريب الحديث : محمود بن احمد قاضي ابو الثناء

 ابن الخطيب (م:٨٣٤)

   (١٤)   مجمع بحار الأنوار  

: علامہ محمد بن طاہر پٹنیؒ  (م:٩٨٦)

احادیث میں مذکور کلمات غریبہ کے صحیح ضبط اور معانی کے لیے طالب علم حدیث کو شروحات کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا کتابوں کی مراجعت کرنی چاہئے۔

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے تیسرا امر   

  سبب ورود الحدیث ( حدیث کا شان ورود اور پس منظر ) کی تحقیق کرنا   

▪️سبب ورود الحدیث کو فن حدیث میں وہی اہمیت حاصل ہے ،جو فن تفسیر میں شان نزول کو حاصل ہے،  جس طرح آیت کے شان نزول سے آیت کے معانی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ،اسی طرح سبب ورود سے حدیث کے معانی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ 

▪️سبب ورود حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس پس منظر میں یا کس واقعہ کے پیش آنے پر ارشاد فرمائی تھی ـ

▪️انواع علوم حدیث میں یہ ایک مستقل نوع ہے جس کا اضافہ   سراج الدين بلقینی(م:٨٠٥)   نے اپنی کتاب   محاسن الاصطلاح   میں کیا ہے ۔

  حافظ ابن صلاح(م: ٦٤٣)   نے اپنے مقدمے میں اس نوع کو  ذکر نہیں کیا تھا۔

▪️سبب ورود کی دو قسمیں ہیں ـ۔

  اول:   جسے حدیث کے بیان کرنے کے دوران ہی ذکر کردیا جائے ـ

  دوم :   جسے حدیث سے الگ بیان کیا جائے.

 اس دوسری قسم کے سبب ورود کی واقفیت حاصل کرنے کے لیے حدیث کی مختلف طرق کو جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ـ

علماء نے سبب ورود پر بھی مستقل کتابیں لکھی ہیں، دو کتابیں مشہور ہیں ـ۔

  (۱) اللمع فی أسباب الحدیث: 

 امام سیوطی ( م: ۹۱۱)

اس کتاب کو ابواب فقہیہ کی ترتیب پر مرتب کیا گیا ہے، حدیث کو ذکر کرنے کے بعد سبب ورود بیان کرتے ہیں ـ۔

  (۲)البیان والتعریف فی اسباب ورود الحدیث الشریف :   

ابن حمزہ حسینی دمشقی حنفی (م: ۱۱۲۰)

یہ اس فن کی اہم  کتاب ہے، جسے حروف ہجائیہ پر مرتب کیا گیا ہے، ابتداء میں ایک مقدمہ تحریر کیا ہے جس میں سبب ورود کی اہمیت، اس کی قسمیں وغیرہ امور پر روشنی ڈالی ہے ـ

اس کتاب میں کل (۱۸۳۹ )احادیث ذکر کی گئی ہیں، جب کہ امام سیوطی نے( ٢٣٢,٢٣٧ )روایات ذکر کی ہیں، اس سے دونوں کتابوں کی ضخامت کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔

نوٹ : انداز ترقیم کے اختلاف کی وجہ سے احادیث کی تعداد میں اختلاف ہوسکتا ہے ۔۔۔۔

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے   چوتھا امر   

  حدیث میں اگر کوئی نام مبہم یا مہمل ہو تو اس کی تعیین کرنا   

  مبہم   وہ ہے  جس کے نام، نسب، نسبت ، کنیت وغیرہ میں سے کچھ بھی ذکر نہ کیا گیا ہو،

مثال کے طور پر کسی حدیث میں   جاء رجل،صحبت فی غزوۃ ،رجع من غزوۃ ،جاء فی غزوۃ   جیسا کوئی مبہم  لفظ ہو ،

مبھم کی تعیین کے تین طریقے ہیں ۔

  • (١) تخریج حدیث
  • (٢)شروحات کی مراجعت
  • (٣)مبھمات پر لگی گئی کتابوں کی مراجعت

(١) تخریج حدیث 

جب ہم اس حدیث کی تخریج کریں گے  تو ہوسکتا ہے کہ ہم کسی ایسی حدیث پر مطلع ہوجائیں جس میں اس مبہم نام یا سفر یا غزوے کی صراحت کردی گئی ہو جس سے اس مبہم نام کی تعیین ہوجائے گی ۔

(٢) شروحات کی مراجعت 

جس کتاب کی حدیث ہو اس کتاب کی شرح دیکھنے سے بھی کبھی  مبھم کی تعیین ہوجاتی ہے ۔اس لئے کہ اکثر شارحین شرح کے دوران مبھمات کی تعیین کا بھی اہتمام کرتے ہیں ۔

(٣) مبھمات پر لکھی گئی کتابوں کی مراجعت 

علماء نے اس امر کو حل کرنے کے لئے مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ ان کتابوں کی ۔مراجعت بھی مفید ہوتی ہے

مبہمات سے متعلق کتابیں

مندرجۂ ذیل کتب میں سے بعض کتابیں صرف سند میں موجود مبہمات سے متعلق ہیں اور بعض سند ومتن دونوں میں موجود مبہمات سے متعلق ہیں ۔

  (۱)   الغوامض والمبھمات : ابومحمد عبدالغنی بن سعید الازدی (م:٤۰۹)

  (۲)   الأسماء المبھمة فی الأنباء المحکمة : خطیب بغدادی (م:٤٦۳)

  (۳)  غوامض الأسماء المبھمة الواقعة فی متون الأحادیث المسندۃ : ابوالقاسم خلف بن عبدالملک المعروف بابن بشکوال القرطبی (م:۵۷۸)

  (٤)   الإشارات إلی المبھمات : امام نووی(م:٦٧٦)

  (۵)   المستفاد من مبھمات المتن والإسناد : ولی الدین ابوزرعہ احمد بن عبدالرحیم العراقی(م:٨٢٦)

مبہم کی تعیین کی مثال

   قال الإمام مسلم رحمه اللہ تعالی   حدثنا قتيبة بن سعيد ، وإسحاق بن إبراهيم ،وسويد بن سعيد ،ويعقوب الدورقي كلهم، عن مروان الفزاري، قال قتيبة : حدثنا الفزاري، عن عبيد الله بن الأصم ، قال : حدثنا يزيد بن الأصم ، عن أبي هريرة ، قال : أتى النبي صلى الله عليه وسلم   رجل أعمى،   فقال : يا رسول الله، إنه ليس لي قائد يقودني إلى المسجد، فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يرخص له، فيصلي في بيته، فرخص له، فلما ولى دعاه، فقال : ” هل تسمع النداء بالصلاة ". قال : نعم. قال : ” فأجب(مسلم كتاب المساجد )

  قال الإمام أبوداؤد   حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا حماد بن زيد ، عن عاصم بن بهدلة ، عن أبي رزين ، عن ابن أم مكتوم ، أنه سأل النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله، إني رجل ضرير البصر، شاسع الدار، ولي قائد لايلائمني، فهل لي رخصة أن أصلي في بيتي ؟ قال : "هل تسمع النداء ؟ ". قال : نعم. قال : ” لا أجد لك رخصة(أبو داود كتاب الصلاة)

  قال الإمام ابن ماجة   حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، قال : حدثنا أبو أسامة ، عن زائدة ، عن عاصم ، عن أبي رزين ، عن ابن أم مكتوم ، قال : قلت للنبي صلى الله عليه وسلم : إني كبير ضرير شاسع الدار، وليس لي قائد يلائمني ، فهل تجد من رخصة ؟ قال : ” هل تسمع النداء ". قلت : نعم. قال : ” ما أجد لك رخصة( ابن ماجه كتاب الصلاة )

  قال الإمام أحمد   حدثنا أبو النضر ، حدثناشيبان ، عن عاصم ، عن أبي رزين، عن عمرو ابن أم مكتوم ، قال : جئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت : يا رسول الله، كنت ضريرا شاسع الدار، ولي قائد لا يلائمني، فهل تجد لي رخصة أن أصلي في بيتي ؟ قال : ” أتسمع النداء ؟ ” قال : قلت : نعم. قال : ” ما أجد لك رخصة( مسند احمد )

  چار کتابوں سے روایت نقل کی گئی۔

مسلم شریف کی روایت میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آنے والے صحابی کے نام کی وضاحت نہیں کی گئی ہے ،لیکن جب اس روایت کی تخریج کی گئی تو   ابو داؤد ،ابن ماجہ اور مسند احمد   کی روایات سے   رجل مبھم   کی تعیین ہوگئی کہ وہ صحابی حضرت   عبد اللہ ابن ام مکتوم   رضی اللہ عنہ تھے۔

اس طرح تخریج کے نتیجے میں مبہم سفر ،مبہم غزوے وغیرہ کی بھی تعیین ہوجاتی ہے ۔

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے پانچواں امر 

  حدیث میں کسی شہر یا ملک کا نام ہو تو اس کی تحقیق اور جدید نام معلوم کرنے کی کوشش کرنا   

نبی اکرم ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں جب کسی ملک یا شہر کا تذکرہ فرمایا تو اس زمانے میں متعارف اور مشہور نام سے اسے موسوم کیا ،لیکن اب گردش ایام کے ساتھ ساتھ بہت سے ملکوں اور شہروں کے نام بدل گئے،جب احادیث مبارکہ میں کسی ملک یا شہر کا نام وارد ہوتو تقریب الی الفہم کی خاطر یہ امر ضروری ہوجاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے اعتبار سے اس ملک یا شہر کا جو نام ہو اس کی تحقیق کی جائے  تاکہ حدیث کا مفہوم  سمجھنا آسان ہوجائے ۔

علماء نے اس موضوع پر بھی مستقل کتابیں تالیف کی ہیں جنہیں کتب بلدان کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

کتب بلدان 

کتب بلدان سے وہ کتابیں مراد ہیں جن میں ایک شہر یا مختلف شہروں کے مقامات، وہاں کی آب وہوا ، حدود اربعہ ، مشہور صنعت ، امراء ، سلاطین، نہروں، پہاڑوں، راستوں وغیرہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اس فن میں جوکتابیں تحریر کی گئی ہیں، ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جن میں صرف بلدان ومقامات سے متعلق عام معلومات درج ہوتی ہیں، لیکن کچھ ایسی بھی ہیں، جن میں ان معلومات کے علاوہ وہاں کے مشہور ائمہ ومحدثین، اہل علم اورراویان حدیث کے متعلق بھی معلومات درج ہیں۔

 چند اہم کتابیں حسب ذیل ہیں۔

  • (۱)   فتوح البلدان : احمد بن یحیی بلاذری(م:۲۷۹)
  • (٢)   المسالک والممالک : ابو عبید عبد الله بن عبدالعزيز بکری(م:٤۸۷)
  • (٣)   معجم مااستعجم : ابو عبیداللہ بکری(م:٤۸۷)
  • (٤)   معجم البلدان : یاقوت حموی(م:٦٢٦)
  • (٥)   مسالک الأبصار فی ممالك الأمصار : شہاب بن فضل اللہ(م:۷٤۹)
  • (٦)اطلس الحدیث النبوی : شوقي ابو خليل 

ایک حدیث کے طالب علم کو اس فن کی کتابوں کی اشد ضرورت پڑتی ہے۔ان کتابوں میں مقامات اور ان کے صحیح تلفظ کے بارے میں بھی رہبری کی جاتی ہے۔ جس سے ملکوں اور شہروں کے ناموں میں تصحیف وتحریف کا امکان ختم ہوجاتا ہے

اس لئے طالب حدیث کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کتابوں کی بھی حسب ضرورت مراجعت کرے ۔

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے چھٹا امر 

حدیث میں اگر اوزان قدیمہ (صاع ،مد وغیرہ ) کا ذکر ہو تو جدید اوزان سے اس کا مقارنہ کرنا

  یہ بات بدیہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانے میں اور جن لوگوں کے سامنےاحادیث مبارکہ ارشاد فرمائی تو آپ ﷺنےاپنی احادیث میں اسی زمانے میں رائج اور انہیں مخاطبین میں متعارف مختلف اوزان اور پیمانوں کا حسب ضرورت ذکر فرمایا،

گردش ایام کے ساتھ ساتھ اوزان اور پیمانوں میں تغیر وتبدل ہوتا رہا ،اور وہی اوزان وپیمانے مختلف ناموں سے متعارف ہوئے ،اب جب حدیث میں کسی جگہ اس زمانے کے اوزان وپیمانوں کا تذکرہ ہو تو مخاطبین کی تفہیم کے لیے یہ بات ضروری ان اوزان وپیمانوں کاجدید اوزان سے مقارنہ کیا جائے تاکہ مخاطبین ان اوزان وپیمانوں کا صحیح اندازہ لگا سکے۔

اس سلسلہ میں علماء نے کافی جدوجہد کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج اوزان وپیمانوں کا جدید اوزان وپیمانوں سے مقارنہ کرکے ان امور کو بھی کتابوں کے سینوں میں محفوظ کردیا ہے ۔شکر اللہ سعیھم

کچھ کتابیں مندرجۂ ذیل ہیں ۔

  •   (۱)   اوزان شرعیہ: حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ
  •   (۲)   اسلامی اوزان :مولانا فاروق اصغر صارم صاحب
  •   (۳)   ثمرۃ الاوزان :مولانا ثمیر الدین صاحب
  •   (٤)   مسائل المیزان :مفتی اسامہ پالن پوری صاحب
  •   (۵)   الاوزان المحمودہ :مولانا ابو الکلام شفیق الرحمن صاحب مظاہری
  •   (٦)   تنشیط الاذھان فی توضیح المیزان :مولانا مبین الرحمن صاحب
  •   (۷)   مفتاح الاوزان :مفتی عبد الرحمن قاسمی عظیم آبادی صاحب

حدیث میں وارد اوزان کا موجودہ زمانے کے اوزان سے مقارنہ کرنے کے لیے ان  مندرجۂ بالا کتابوں کی مراجعت کرنی چاہیے ۔

نوٹ : اب خوشی کی بات یہ ہے کہ مفتی شفیع صاحب رح کی کتاب ایپ کی شکل میں اس لنک پر دستیاب ہے ۔جس سے جدید اوزان معلوم کرنا آسان ہوگیا ہے ۔

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے ساتواں امر 

  تخریج حدیث اور جمع طرق   

حل متن کے لئے  یہ امر بھی نہایت ضروری ہے کہ مطلوب حدیث کی مختلف کتابوں سے تخریج کی جائے تاکہ حدیث کے مختلف اجزاء مکمل طور پر سامنے آجائیں اورحدیث کے صحیح مفہوم تک رسائی حاصل ہوجائے،کیوں کہ اکثر وبیشتر احادیث میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی حدیث اپنے مکمل اجزاء کے ساتھ ایک جگہ نہیں ہوتی بلکہ رواۃ کے تصرفات کی وجہ سے حدیث کے اجزاء مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے ہوتے ہیں ،جب انہیں مختلف کتابوں سے کھنگال کر نکالا جاتا ہے تو حدیث اپنے مکمل اجزاء کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی جس سے اسی حدیث سے متعلق بعض مغلق باتیں حل ہوجاتی ہے اور حدیث کے صحیح مفہوم تک رسائی آسان ہوجاتی ہے ۔

جمع طرق کے فوائد

(۱)الفاظ غریبہ کی وضاحت 

 اہل علم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کی حدیث میں موجود الفاظ غریبہ کی سب سے بہترین وضاحت وہ ہے جو دوسری حدیث کے ذریعے ہوتی ہوـ

(۲) سبب ورود اور نسخ کا علم   

کبھی تخریج سے ایسی اسانید پر اطلاع ہوتی ہے، جس کے متن میں حدیث کا سبب ورود مذکور ہوتا ہے یا تاریخ وزمانہ مذکور ہوتا ہے کہ کس وقت یہ حدیث بیان کی گئی تھی جس سے ناسخ ومنسوخ کا علم ہوجاتا ہے، یا ان حالات کا علم ہوجاتا ہے، جن حالات میں یہ حدیث بیان کی گئی ہوتی ہے، جس کی مدد سے حدیث کے معانی کی تعیین بآسانی ہوسکتی ہے۔

(۳) متن میں موجود مبہمات کی تعیین   

 بسااوقات ایک حدیث میں موجود مبہم لفظ یا نام  دوسری حدیث میں مبین  ہوتا ہے جس سے مبہم کی تعیین ہوجاتی ہے ۔

(٤)مجمل کی وضاحت 

 بسااوقات کوئی راوی تصرف کرکے روایت کو مختصر کردیتا ہے جس کی وجہ سے حدیث کے سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ،دوسرا راوی اسی حدیث کو جوں کا توں نقل کرتا ہے جس سے اس اجمال کی وضاحت ہوجاتی ہے ـ

(۵)محتمل معانی میں سے کسی ایک معنی کی ترجیح   

  کبھی تخریج کے نتیجے میں ایسے متن پر اطلاع ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک روایت میں موجود چند محتمل معانی میں سے ایک معنی کو ترجیح دینا آسان ہوجاتا ہے ـ

(٦) مشکوک امر کا مرتفع ہونا   

 اگر راوی نے  شک  کے ساتھ کوئی بات بیان کی ہوتی ہے تو جمع طرق کی وجہ سے کبھی وہ شک ختم ہوجاتا ہے، اس لیے کہ کبھی  دوسرا راوی اسی روایت کو صیغۂ جزم سے روایت کرتا ہے ـ

(۷) شروحات کی مراجعت میں آسانی   

تخریج سے جب طالب علم کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حدیث فلاں فلاں جگہ ہے، تو اس کے لئے حدیث کے معانی کی وضاحت کے لئے دوسرے شارحین حدیث کے کلام کو دیکھنا آسان ہوجاتا ہے،

جیسے ایک حدیث ابوداود میں ہے، اور وہی حدیث بخاری ومسلم میں ہے، تو طالب علم ،حدیث کے معانی کی وضاحت کے لئے بخاری ومسلم کی شروحات کا بھی مطالعہ کرسکتا ہے۔

(۸)علت قادحہ کا علم   

تخریج کے دوران ایسی اسانید یا ایسے الفاظ مختلفہ پر اطلاع ہوتی ہے جس کی وجہ سے کبھی سند یا متن میں پائی جانے والی علت قادحہ کا علم ہوجاتاہے۔

(۹)تصحیف و تحریف کا علم   

 تخریج کے دوران متنِ حدیث یا سندِ حدیث میں موجود تصحیف وتحریف کا علم ہو جاتا ہے، اور آدمی تحقیق کرکے درستگی تک پہنچ جاتا ہے۔

تخریج کے طرق   

کتب احادیث  کے طرز تالیف کے اختلاف کے پیش نظر تخریج حدیث کے چھ طرق علماء نے بیان کئے ہیں ۔لیکن جدید آلات کی ایجاد کی وجہ سے تقریباََ وہ طرق متروک ہوگئے ہیں ۔

  ▪️جدید آلات کے ذریعہ تخریج : 

 اس طریقہ سے حدیث تلاش کرنے کے لئے  مختلف مکتبات کے تیار کردہ ان سافٹ ویرز سے مدد لینی چاہئے جو تخریج کے فن اور کام میں سہولیات مہیا کرتے ہیں۔

 اس طریقہ سےکم وقت میں زیادہ کام ہونے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور ایک ہی جگہ بہت سا مواد بھی اکٹھامل جاتا ہے، اس سلسلہ میں استعمال کیے جانے والے کچھ پروگرام دو طرح کے ہیں۔

عربی سافٹ ویر
  • (۱)   موسوعة الحدیث الشریف
  • (۲)   جوامع الکلم 
  • (۳)   المرجع الأکبر
  • (٤)   مکنون میراث
  • (۵)   الباحث الحدیثی
  • (٦)   الموسوعة الفقھیة
  • (۷)   برنامج المحاضرات
  • (۸)   جامع الکتب الستة
  • (۹)   جامع خادم الحرمین 
  • (۱۰)   جامع للحدیث النبوی 
  • (۱۱)   موسوعة القرآن والحدیث
  • (۱۲)   برنامج مفھرس المخطوطات
  • (۱۳)   المرجع الأ کبرللتراث الإ سلامی
  • (١٤)    المحدث
  • (۱۵)    الموسوعة الذھبیة للحدیث الشریف
  • (١٦)    المکتبة الألفیة للسنة
  ▪️اردو سافٹ ویرز: 

جس میں حدیث کا اردو ترجمہ لکھ کر سرچ کیا جاسکتا ہے۔جیسے 

  •   (۱)   مکتبہ جبرئیل 
  •   (۲)   مکتبہ یاسین 
  •   (۳)   اسلام  ۳٦۰
  •   (٤)   مکتبہ خاتم النبیین 
  •   (۵)   ایزی قرآن وحدیث
  •   (٦)   ڈیجیٹل اسلامک لائبریری
  •   (٧)   اسلام ون 

ان میں بعض صرف کمپوٹر میں چلائے جاسکتے ہیں اور بعض کمپوٹر اور موبائل دونوں میں چلائے جاسکتے ہیں ۔

ان مذکورۂ بالا سافٹ ویر کے علاوہ بعض انٹرنیٹ سائٹس بھی آن لائن تخریج کے مواقع فراہم کررہی ہے۔

لیکن اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ یہ سافٹ ویرز اس صورت میں ہمارے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں جب انہیں ہم معاون مآخذ کے طور پر استعمال کریں اور ان پر مکمل اعتماد نہ کریں بلکہ ان سے حدیث تلاش کرکے اصل کتاب کی طرف مراجعت کریں کیوں کہ ان پروگرام میں موجود کتب میں اغلاط کا امکان موجود ہے۔ پھر اس کے ورژن بھی لاتعداد ہیں۔ ان میں سہولت یہ ہے کہ ہر ایک اپنی سہولت سےان میں موجود کتب میں کمی وبیشی کرسکتا ہے، اس لیے ان سافٹ ویرز کے ذریعہ کی گئی تخریج اس وقت تک مفید نہ ہوگی جب تک کہ اصل کتب کی طرف مراجعت نہ کرلی جائے۔

 البتہ اب المکتبة الشاملة کے نئے ورژن میں ہرکتاب کے ساتھ پی۔ ڈی ۔ایف ۔کتاب بھی شامل کرلی گئی ہے، اس لیے مراجعت میں سہولت پیدا ہوگئی ہے۔

ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ ان پروگرام کے ذریعہ تخریج کرنے سے پہلے کچھ مدت تک تخریج کا فطری طریقہ(کتابوں کے ذریعے تخریج) اختیار کریں تاکہ کتابوں سے کچھ ممارست پیدا ہوجائے۔

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے آٹھواں امر 

جس کتاب کی حدیث ہے اس کتاب کے منہج ومقصد  کو پیش نظر رکھنا    

حل متن حدیث کے لئے یہ امر بھی ضروری ہے کہ جس کتاب کی حدیث ہے اس کتاب کے مؤلف کے منہج کو  بھی پیش نظر رکھا جائے ،تاکہ حل حدیث میں سہولت اورآسانی رہے ۔

اور جمع احادیث سے مؤلف کا جو مقصد ہو اسے بھی  پیش نظر رکھنا چاہیے اس سے بھی مراد حدیث کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے ۔

چوں کہ ہمارےیہاں دورۂ حدیث میں صحاح ستہ پڑھائی جاتی ہیں، اس لئے انہیں کتابوں کے مناہج ومقاصد کی وضاحت ذکر کی جارہی ہے ۔

(۱)امام بخاری: 

امام بخاریؒ کی غرض تالیف، احکام اور استنباطِ مسائل ہے، بعض مرتبہ استنباط اس قدر دقیق ہوتا ہے کہ روایت اور ترجمۃ الباب میں مطابقت کے لیے دقتِ نظری سے کام لینا پڑتا ہے۔ امام بخاریؒ بسا اوقات پوری حدیث ایک جگہ نہیں نقل کرتے، بلکہ مختلف مواقع پر اس کے وہی ٹکڑے ذکر کرتے ہیں جس سے وہاں حکم مستنبط ہو رہا ہے۔ امام بخاریؒ کے تراجم آپ کی دقت نظر اور تفقہ کی ترجمانی کرتے ہیں، اس لیے مشہور ہے:   فقه البخاری فی تراجمه   ۔ (امام بخاریؒ کی فقہ ان کے تراجم میں ہے)

اس کے دو مطلب ذکر کیے گئے ہیں:

(١)   امام بخاریؒ کا مسلک اور فقہی رجحان ان کے تراجم سے آشکارا ہوتا ہے۔

(٢)   امام بخاریؒ کی دقتِ نظری اور ذکاوت ان کے  تراجم سے واضح ہوتی ہے۔

یعنی فقہ یا تو اپنے معروف معنی میں ہے یا ذکاوت اور دقتِ نظری کے معنی میں ہے۔

چناں چہ مولانا محمد یوسف بنوریؒ فرماتے ہیں:

"فقه البخاری فی تراجمه، ولہذا القول عند شیخنا محملان،

  الأول   أن المسائل التی اختارها من حیث الفقه تظہر من تراجمه

  والثانی   أن تفقهه وذکاءہ ودقة فکرہ یظهر فی تراجمه (معارف السنن۱/۲۳)

(۲)امام مسلم ؒ

امام مسلم کا وظیفہ صحیح احادیث کو جمع کرنا ہے، چناں چہ وہ ایک موضوع کی حدیث کو اس کے تمام صحیح طرق کے ساتھ ایک جگہ مرتب شکل میں جمع کر دیتے ہیں، استنباط سے ان کی کوئی غرض متعلق نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے  اپنی کتاب کے تراجم ابواب بھی خود قائم نہیں کیے، بلکہ بعد کے لوگوں نے حواشی میں بڑھائے ہیں۔ ہمارے موجودہ ہندوستانی نسخے میں قائم کردہ عنوانات امام نوویؒ  کےہیں۔

(۳)امام ابو داود 

ان کا وظیفہ مستدلاتِ ائمہ بتلانا ہے، اس لیے وہ ان احادیث کو تمام طرق کے ساتھ یکجا ذکر کر دیتے ہیں، جن سے کسی فقیہ نے کسی بھی فقہی مسئلہ پر استدلال کیا ہو۔

اس  کام کے لیے وہ امام مسلمؒ کی طرح صحیح احادیث کی پابندی نہیں کرسکے، البتہ   “قال أبو داود”   کے عنوان سے وہ ضعیف اور مضطرب احادیث پر کلام کردیتے  ہیں۔

(٤)امام ترمذی  ؒ

امام ترمذی کا مقصد اختلافِ ائمہ کو بتلانا ہے، اس لیے وہ ہر فقیہ کے مستدل کو جداگانہ باب میں ذکر کر کے ان کا اختلاف نقل کرتے ہیں۔ ہر باب میں عموماً صرف ایک حدیث لاتے ہیں اور باقی احادیث کی طرف   وفی الباب عن فلان وفلان   کہہ کر اشارہ کر دیتے ہیں۔

(۵)امام نسائی  ؒ

آپ کا مقصد زیادہ تر عللِ اسانید بیان کرنا ہے، چناں چہ وہ احادیث کی عللِ خفیّہ پر   "ھذا خطأ”   کہہ کر متنبہ کرتے ہیں۔

 اس کے بعد وہ ایسی  حدیث ذکر کرتے  ہیں جو ان کے نزدیک صحیح ہو، اس کے ساتھ استنباطِ احکام پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے۔

(٦)امام ابن ماجہؒ 

ابن ماجہ کا مقصد امام ابو داود کی طرح مستدلات ائمہ کی وضاحت ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے کثرت ابواب کا اہتمام کیا ہے اور تراجم ابواب کو واضح کیا ہے ،نیز ان کے پیش نظر زوائد اور غرائب کو جمع کرنا بھی ہے 

▪️اس لیے علماء نے لکھا ہے “ہر حدیث پڑھنے والے کو سب سے پہلے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ اس حدیث کے متعلق ائمہ کیا کہتے ہیں اور ان کا مذہب کیا ہے؟ یہ بات ترمذی سے معلوم ہو گی۔

▪️ اس کے بعد جب مذہب معلوم ہو گیا تو اب ضرورت ہے کہ اس کی دلیل معلوم ہو، وہ وظیفہ ابو داود کا ہے۔

▪️ اس کے بعد اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ مسئلہ کیسے مستنبط ہوا؟ یہ وظیفہ امام بخاریؒ کا ہے کہ وہ استنباطِ مسائل کا طریقہ کی نشان دہی فرماتے   ہیں۔

▪️اس کے بعد جب احادیث سے مسائل مستنبط ہو گئے اور دلائل سامنے آ گئے تو ان دلائل کی تقویت کے لیے اسی مضمون کی دوسری احادیث کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یہ کمی امام مسلمؒ پوری کرتے ہیں۔

▪️اب اس کے بعد اس امر  کی ضرورت پیش آتی ہے  کہ یہ حدیث جو مستدل بن رہی ہے، اس کے اندر کوئی علت تو نہیں، اس کا تعلق نسائی سے ہے۔

▪️ اس کے بعد آدمی کو ایک مستقل بصیرت حاصل ہو جاتی ہے، اب اس کو چاہیے کہ وہ احادیث پر غور کرے اور خود دیکھے کہ اس حدیث کے اندر کوئی علت تو نہیں، کیوں کہ نسائی شریف کے اندر تو خود امام نسائیؒ ساتھ دے رہے تھے اور بتلاتے جاتے تھے کہ اس حدیث میں یہ علت ہے، لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر کسی کے مطلع کیے ہوئے خود احادیث کو پرکھے اور علل کو تلاش کرے، اس کے لیےمعین ابن ماجہ ہے، کیوں کہ اس میں احادیث گڈمڈ ہیں اور کسی کے متعلق یہ نہیں بتلایا گیا ہے کہ اس حدیث کا درجہ کیا ہے، انہی اغراض کے پیش نظر ہمارے اکابر نے مذکورہ بالا ترتیب قائم فرمائی تھی

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے نواں امر 

  ترجمۃ الباب اور حدیث کے درمیان مطابقت "ماخذومصادر” 

  ▪️عنوان اور ترجمہ کا معنی : 

کسی چیز کا آغاز اور ابتدائی حصہ۔ جیسے ترجمۃ الکتاب، کتاب کا ابتدائی حصہ۔

▪️صحاح ستہ میں احادیث ذکر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلےحدیث کے مضمون کے مطابق ترجمہ قائم کیا جاتا ہے، اس کے بعد حدیث ذکر کی جاتی ہے.

▪️کبھی ترجمۃ الباب اور مذکور حدیث کے درمیان مطابقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ غور وخوض کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی.

▪️کبھی ترجمۃ الباب اور حدیث کے درمیان مطابقت واضح نہیں ہوتی جس کی وجہ سے غوروخوض کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے.

▪️اور کبھی حدیث اور ترجمۃ الباب کے درمیان مطابقت انتہائی دقیق ہوتی ہے، جو اکابر محدثین کی کتابوں کی مراجعت کے بغیر واضح نہیں ہوتی ہے.

▪️عام طور پر اس طرح کے تراجم بخاری میں پائے جاتے ہیں،اور کچھ تراجم  نسائی میں پائے جاتے ہیں ۔

▪️امام بخاری نے اپنی کتاب کے تراجم ابواب میں بہت سے علمی، فقہی، اصولی اور لغوی حقائق اور دقائق کو سمو دیا ہے، جن کے سمجھنے سے بڑے بڑے فحول علماء بھی قاصر رہے ہیں۔ اور عظیم رجال ان تک رسائی حاصل کرنے سے حیران ہیں۔

 حتیٰ کہ مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں: بخاری سے پہلے کسی مصنف نے اس قسم کے تراجم ابواب قائم نہیں کئے اور نہ ہی ان کے بعد اس قسم کے تراجم ابواب وجود میں آئے،گویا امام بخاری اس دروازے کو کھولنے والے تھے اور خود ہی اس دروازے کو بند کردینے والے ہیں۔   ھو الفاتح لذلک الباب وصار ھو الخاتم۔ 

تراجم کے اندر امام بخاری نے ترجمۃ الباب سے متعلق آیات، صحابہ اور تابعین کے فتاویٰ اور اہل لغت کے کلام کو درج کیا ہے،اور بہت سے تراجم میں مرفوع معلقات بھی لائے ہیں،ان تراجم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری کو حدیث، تفسیر، تاریخ، لغت، اصول اور علم کلام پر پورا پورا عبور حاصل ہے،اس لیے یہ بات مشہور ہوچکی ہے کہ ۔فقه البخاری فی تراجمه  کہ امام بخاری کی فقہ ان کے تراجم میں موجود ہے۔

خاص طور پر بخاری میں حل تراجم کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے اس لئے علماء نے بخاری کے تراجم کے حل کرنے کے لئے مستقل کتابیں تالیف کی ہیں ۔

کچھ کتابیں مندرجۂ ذیل ہیں ۔

(١)   فكُّ أغراض البخاري المبهمة في الجمع بين الحديث والترجمة: لأبي عبد الله محمد بن منصور بن حمامة المغْرَاويّ السَجْلَمَاسِيِّ، (م:٣٧٠ هـ).

(٢)   تراجم كتاب صحيح البخاري ومعاني ما أشكل منه: لابن رَشِيقِ أَبي العَبْاسِ أحمد الأندلسي المالكي، (م: ٤٤٢)

(٣)   المتواري على تراجم البخاري: لابن الورد أحمد بن محمد بن عمر المالكي، (م:٥٤٠)

(٤)   المتواري على تراجم البخاري: لناصر الدين ابن المنيِّر أحمد بن محمد بن منصور الإسكندري المالكي، قال ابن حجر: (قد جمع العلامة ناصر الدين أحمد بن المنيّر خطيب الإسكندرية من ذلكَ أربعمائة ترجمة(م:٦٨٣) وهو مطبوع. ونسبه بعضهم إلى أخيه زين الدين.

(٥)   شرح مناسبات تراجم البخاري: لابن المنيّر أبي الحسن زين الدين علي بن محمد بن منصور الإسكندري المالكي، (م: ٦٩٥) وهو شرح على كتاب أخيه ناصر الدين السابق.

(٦)   ترجمان التراجم: لأبي عبد الله محمد بن عمر بن رُشَيد الفهري السِّبتِي، (م:٧٢١)

(٧)   مناسبات تراجم البخاري: لابن جماعة محمد بن إبراهيم بن سعدالله الحَمَويّ الشافعي الدمشقي،  (م:٧٣٣)

(٨)   مناسبات تراجم أبواب البخاري لأحاديث الباب: لبدر الدين البُلقيني أبي حفص عمر ابن رسلان المصري الشافعي.(م:٨٠٥)

(٩)   المتواري على تراجم صحيح البخاري: لابن ناصر الدين أبي عبد الله محمد بن عبد الله بن محمد القيسي الدمشقي (م:٨٤٣)

(١٠)   شرح تراجم البخاري: لابن علي بافضل محمد بن أحمد بن عبدالله السعدي الحضرمي اليمني الشافعي.(م: ٩٠٣)

(١١)   أمالي على أبواب متفرِّقة من صحيح البخاري: للمستنيري أبي عبد الله محمد الشريف المالكي.(م:١١٣٨)

(١٢)   الأبواب والتراجم للبخاري: للشيخ محمود حسن الديوبندي، (م:١٣٣٩). بلغ إلى باب: (من أجاب السائل بأكثر مما سأله من كتاب العلم) ثم اخترمته المنية قبل إكماله. مطبوع.

(١٣)   تعليقات على أبواب البخاري: لشاه عبد الرحيم الدهلوي الحنفي.(م:١١٥٠)

(١٤)   شرح تراجم أبواب صحيح البخاري: للشاه ولي الله أحمد بن عبدالرحيم الدهلوي الهندي،(م: ١١٧٦)

(١٥)   الأفاويق بتراجم البخاري والتعالي: للبهكلي عبد الرحمن بن أحمد بن الحسن الضَّمْدِي اليماني الزيدي القاضي.(م: ١٢٤٨)

(١٦)   أمالي على أبواب صحيح البخاري: للنجّار أبي عبدالله محمّد بن عثمان بن محمد التونسي المالكي.(م:١٣٣١)

(١٧)   لُبُّ اللبــاب في التراجم والأبواب: للعـلامة عبـد الحـق الهاشمي(م:١٣٩٢)

(١٨)   الأبواب والتراجم للبخاري: تأليف العلامة محمد زكريا الكاندهلوي، (م:١٤٠٢)

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے دسواں امر 

  مختلف الحدیث ومشکل الحدیث کا حل   

علومِ حدیث کی اقسام و انواع بہت زیادہ ہیں۔ متقدمین میں سے حاکم نیشاپوریؒ نے معرفة علوم الحدیث میں ۵۲، ابن صلاحؒ نے مقدمة ابن الصلاح، امام نوویؒ نے التقریب في أصول الحدیث اور ابن ملقنؒ نے المقنع في علوم الحدیث میں ٦۵ اورامام جلال الدین سیوطیؒ نے ۹۳ علومِ حدیث ذکر کیے ہیں۔

علامہ سیوطیؒ سے ان کی بابت منقول ہے:

«اعلم أن أنواع علوم الحدیث کثیرة لا تُعدّ

حازمیؒ اس حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:

«علم الحدیث یشمل علی أنواع کثیرة تبلغ مائة،کل نوع منھا علم مستقل،لو أنفق الطالب فیه عمره ما أدرك نهایته

” علم حدیث کی سو تک اقسام ہیں، ہر نوع ایک مستقل علم ہے اور اگر کوئی طالب علم اپنی پوری عمر ایک علم میں کھپا دے، تب بھی اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا۔”

انہی اَنواع میں سے ایک اہم نوع   علم مختلف الحدیث اور علم مشکل الحدیث    ہے۔ اس علم کا تعلق متن حدیث سے ہے۔اس میں صرف ان اَحادیث کو زیر ِ بحث لایا جاتا ہے جو درجہ کے اعتبار سے مقبول ہوں اور جن میں تضاد اور تناقض کا پایا جانا صرف ظاہراً ہو، چنانچہ اَحادیث کے اس ظاہری تعارض کو رفع کرنے کے لیے اس علم کے مختلف اُصول و قواعد کو بروئے کار لاتے ہوئے باہم جمع و تطبیق سے کام لیا جاتا ہے۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر ناسخ و منسوخ یا وجوہاتِ ترجیح کے ذریعے ان کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے

  مختلف الحدیث: 

مختلف الحدیث سے مراد ایسی دو حدیثیں ہیں جو باہم متعارض ہولیکن ان کے درمیان جمع وتطبیق ممکن ہو ـ

  علم مختلف الحدیث: 

علم مختلف الحدیث ان قواعد وضوابط کو کہتے ہیں جن کی مدد سے دو متعارض روایتوں کے درمیان تطبیق یا ترجیح دی جاتی ہے ـ

  مشکل الحدیث: 

مشکل الحدیث ان احادیث کو کہا جاتا ہے جن کا معنی واضح نہ ہو یعنی وہ متن حدیث ہے جس کی مراد بادئ النظر میں واضح نہ ہو.

  علم مشکل الحدیث: 

علم مشکل الحدیث سےمراد وہ قواعد وضوابط ہیں جن کے ذریعے حدیث کی مراد واضح کی جاسکے ـ بعض محدثین نے اس علم کا نام    شرح الآثار   رکھا ہے ـ

  مختلف الحدیث اور مشکل الحدیث میں موازنہ: 

  (۱)   مختلف الحدیث کے وجود کے لیے ضروری ہے کہ دو یا زیادہ احادیث موجود ہوں جن میں ظاہری طور پر تعارض اور اختلاف پایا جائے۔

مشکل الحدیث کے لیے دو یا زیادہ احادیث میں تعارض کا پایا جانا ضروری نہیں ہے ۔

  (۲)   احادیث میں موجود تعارض کو رفع کرنے کے لیےعلماء کے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہی چلنا پڑےگا،اس تعارض کو رفع کرنے کے لیےصرف عقل پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔

مشکل الحدیث کو رفع کرنے کے لیے غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے ،جس کے لیے عقل ایک اہم عنصر ہے،بلکہ بسا اوقات عقل کے ذریعے ہی اشکال رفع کیا جاتا ہے ۔

  (۳)   مختلف الحدیث کے لیے ضروری ہے کہ پایا جانے والا اختلاف صرف دو یا دو سے زیادہ احادیث کے درمیان ہی ہو،احادیث کے علاوہ دوسرے دلائل سے اس کا تعلق نہیں ہے ۔

مشکل الحدیث کسی ایک دلیل کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس کی بہت ساری قسمیں ہیں۔

▪️حدیث میں پایا جانے والااشکال حدیث کے اپنے معنی کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہو،اس میں کسی دوسری حدیث سے اختلاف ضروری نہیں ہے ۔

▪️حدیث کا تعارض آیت سے ہو ۔

▪️حدیث کا تعارض اجماع سے ہو۔

▪️حدیث کا تعارض قیاس سے ہو۔

▪️حدیث کا تعارض عقل سے ہو۔

اس موضوع پر لکھی گئی   چند کتابیں 

  • (١)   كتاب اختلاف الحديث للإمام الشافعي (م:٢٠٤هـ)
  • (٢)   تأويل مختلف الحديث لابن قتيبة  (م،: ٢٧٦)
  • (٣)   شرح مشكل الآثار لأبي جعفر الطحاوي(م: ٣٢١)
  • (٤)   تأويل الأحاديث المشكلة لأبي الحسن علي بن محمد بن مهدي الطبري وهو مخطوط
  • (٥)   مشكل الحديث وبيانه: لمحمد بن الحسن بن فورك الأصبهاني (م: ٤٠٦)
  • (٦)   منهاج العوارف في شرح مشكل الحديث للقاضي عياض(م: ٥٤٦)
  • (٧)   التنبيهات المجملة على المواضع المشكلة للعلائي  (م: ٧٦١)
  • (٨)   مشكلات الأحاديث النبوية وبيانها لعبد الله بن علي القصيمي النجدي
  • (٩)   دفع التعارض عن مختلف الحديث. لحسن مظفر الرزو
  • (١٠)   مختلف الحديث بين الفقهاء والمحدثين للدكتور نافذ حسين حماد.
  • (١١)   دراسة نقدية في علم مشكل الحديث لإبراهيم العسعس .
  • (١٢)   منهج التوفيق والترجيح بين مختلف الحديث د. عبد المجيد محمد السوسوة .
  • (١٣)   مختلف الحديث بين المحدثين والأصوليين الفقهاء د. أسامة بن عبد الله الخياط
  • (١٤)   مختلف الحديث وأثره في أحكام الحدود والعقوبات د.طارق بن محمد الطواري

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے گیارہواں امر 

  ناسخ  ومنسوخ کی تحقیق    

درایت حدیث کے لیے جو علوم درکار ہیں ان میں ایک علم ناسخ ومنسوخ کی معرفت ہے، جب تک محدث کو اس علم میں مہارت تامہ نہیں ہوتی وہ متعارض نصوص کے درمیان متوازن رائے قائم نہیں کرسکتا ہے ـ

نسخ کے معنی   

نسخ کے لغوی معنی ختم کرنا، زائل کرنا اور مٹادینا ہے.

اصطلاح شریعت میں اس کی حقیقت یہ ہے کہ شارع کی جانب سے حکم سابق کی مدت ختم ہونے کو بتلانا۔

کیوں کہ اللہ تعالی کے علم میں بعض احکام مؤقت ہوتے ہیں، مدت کے پورے ہونے پر حکم انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور حکم سابق کی جگہ دوسرا حکم دیا جاتا ہے۔

نسخ ایسے حکم میں ہوتا ہے جو مدت اور وقت کی تعیین کا احتمال رکھتا ہو، اگر اس میں وقت کی تعیین کا بالکل احتمال نہ ہو تو وہ نسخ کا مورد نہ ہوگا.

نسخ کبھی تدریجی ہوتا ہے اور کبھی یکبارگی

 تدریجی مثلاً کنویں کے احکام میں کو رفتہ رفتہ شدت سے خفت کی طرف لایا گیا اور کبھی اس کے برعکس ہوتا ہے جیسے نماز کے منافی اعمال میں حرمت کے تعلق سے خفت سے شدت کی جانب لایا گیاـ۔

نسخ کی قسمیں: 

نسخ کی بنیادی طور پر دوقسمیں ہیں:

  •   (۱)   نسخ منصوص 
  •   (۲)   نسخ اجتہادی 
  ▪️نسخ منصوص 

نسخ منصوص یعنی دلیل نسخ خود کسی مرفوع حدیث میں وارد ہو،

مثلاً حدیث مرفوع میں حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا، اب تم قبروں کی زیارت کیا کرو! میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرکے رکھنے سے منع کیا تھا ،اب تم اسے جتنے دن چاہو ذخیرہ کرکے رکھو ! میں نے تمہیں چمڑے کے مشکیزوں کے علاوہ میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا، اب تم جس برتن میں چاہو بناؤ!مگر نشہ آور مشروب نہ بناؤ!

( مسلم: کتاب الجنائز باب استیذان النبی صلی الله علیه وسلم ربه عزوجل فی زیارۃ قبر امه رقم:  ۱٦۲۳)

یا نسخ  کسی ایسی دلیل سے ثابت ہو جو نسخ منصوص کے قائم مقام ہو ،

مثلاً اجماع یا کسی صحابی کے ایسے حکم کے نسخ کی خبر دینا جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو۔

 بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صحابی کا بیان نسخ اجتہادی ہے ،نسخ منصوص کے قائم مقام نہیں ہے۔

  ▪️نسخ اجتہادی : 

نسخ اجتہادی یہ ہے کہ دو متعارض دلیلوں میں سے ایک کا منسوخ  ہونا مندرجۂ ذیل امور سےمعلوم ہوتا ہے

  • (۱)   کسی صحابی کے قول سے
  • (۲)   تاریخ سے
  • (۳)   ممانعت سے
  • (٤)   قواعد کلیہ کے ساتھ معارض ہونے کی وجہ سے
  • (۵)   نص متواتر
  • (٦)   مشہور کے ساتھ تعارض سے
  • (۷)   اس صحابی کے عمل کے خلاف ہونے سے ہو۔
علم ناسخ ومنسوخ سے متعلق تالیفات: 
  • (۱)   الناسخ والمنسوخ من الحديث : عبد الله احمد بن محمد بن حنبل الشيبانی(م:۲٤۱)
  • (۲)   ناسخ الحديث ومنسوخه: ابو بکر احمد بن محمد الطائی المعروف ب اثرم(م:۲٦۱)
  • (۳)   الناسخ والمنسوخ من الحديث :ابو داود سجستانی سليمان بن اشعث (م:۲۷۵)
  • (٤)   ناسخ الحديث ومنسوخہ: ابو بکر محمد بن عثمان بن الجعد شیبانی۔
  • (۵)   ناسخ الحديث ومنسوخہ: احمد بن اسحاق  تنوخی(م:۳۱۸)
  • (٦)   الناسخ والمنسوخ: احمد بن محمد بن سلامہ طحاوی مصری (م:۳۲۱)
  • (۷)   ناسخ الحديث ومنسوخه: ابو جعفر نحاس احمد بن محمد بن اسماعيل مصری (م:۳۳۸)
  • (۸)   الناسخ والمنسوخ: ابو محمد قاسم بن اصبغ بن محمد بن يوسف اموی قرطبی(م:۳٤۰)
  • (۹)   الناسخ والمنسوخ من الحديث: عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان اصبہانی (م:۳٦۹)
  • (۱۰)   ناسخ الحديث ومنسوخه: ابوحفص عمربن شاھين بغدادی(م:۳۸۵)
  • (۱۱)   الناسخ والمنسوخ:ابو القاسم عبد الکريم بن هوازن بن عبد الملک قشيری(م:٤٦۵)
  • (۱۲)   الإعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار: محمد بن موسی بن حازمی(م: ٥٨٤)
  • (۱۳)   إعلام العالم بعد رسوخه بحقائق ناسخ الحديث ومنسوخه:  ابن الجوزی حنبلی (م:۵۹۷)
  • (١٤)   إخبار أھل الرسوخ فی الفقه والحديث بمقدار المنسوخ من الحديث: ابن الجوزی حنبلی(م:۵۹۷)
  • (١٥)   الناسخ والمنسوخ فی الحديث: احمد بن محمد بن مظفر بن المختار رازی(م:٦۳۱)
  • (۱۵)   رسوخ الأحبار فی منسوخ الأخبار: برهان الدین ابراهيم بن عمر(م:۷۳۲)
  • (١٦)   عدۃ المنسوخ فی الحدیث: حسين بن عبد الرحمن شیخ علی اہدل(م:۸۵۵)

ناسخ ومنسوخ کی معرفت کے لیے ان مذکورۂ بالا کتابوں کی حسب ضرورت مراجعت کرنی چاہیے۔

حل متن کے لئے ضروری امور میں سے بارہواں امر 

  مذاہب ائمہ اور ان کے دلائل    

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محدثین کرام نے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیق وجستجو اور ان کے ثبوت واستناد میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا اور مکمل امانت ودیانت داری کے ساتھ رواۃ کے بارے میں فیصلے کئے۔

لیکن پھر احادیث کے محامل متعین کرنے میں اختلاف ہوا اور  اختلاف کا یہ سلسلہ خود حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے درمیان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ملتا ہے جو تابعین اور تبع تابعین تک منتقل ہوا ،اس فقہی اختلاف میں حدیث کا کردار بنیادی اور اہم رہا ہے،ان حضرات اور بعد کے فقہاء کے درمیان جو بھی فقہی اختلاف ملتا ہے مخلصانہ ہوتا تھا ،اپنی رائے پر اصرار اور ضد یا اپنے خیال کی پچ رکھنا مقصود نہیں ہوتا تھا ،اسی لئے امام ابو حنیفہ اور دوسرے فقہاء کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں کوئی رائے قابل قبول وقابل اعتناء نہیں ،علماء نے اس فقہی اختلاف کی نوعیت اور حقیقت اور اسباب کی وضاحت کے لیے کتابیں لکھی ہیں ،جس کا مقصد یہی ہے کہ اس فقہی اختلافات کو بعد کے لوگ مجادلۂ سیئہ اور فساد ذات البین کا ذریعہ نہ بنالیں ،فقہائے سلف کی اس جماعت کے بارے میں( جن کا اخلاص ،خداترسی ،دیدہ وری ،زمانہ شناسی ،بالغ نظری اور مآخذ شریعت کی حفاظت کا ان کے اندر جذبہ ،تاریخ کا ایک بے مثال واقعہ ہے )کوئی بدظنی کا شکار نہ ہوجائے ۔

اختلاف ائمہ پر کلام کرنے سے پہلے اختلاف ائمہ کے اسباب ووجوہات سے بھی اطلاع ضروری ہے۔

ذیل میں چند بنیادی اسباب تحریرکئے جاتے ہیں۔

  (۱)   بسا اوقات ایک حدیث کسی عالم کو پہنچتی ہے جو دوسرے عالم تک نہیں پہنچتی ہے۔

  (۲)   ایک حدیث کو کسی عالم نے وجوب پر محمول کیا تو کسی نے استحباب پرمحمول اور کسی نے اباحت پر محمول کیا،اس وجہ سے بھی مسائل میں اختلاف ہونا ایک عام بات ہے ۔

  (۳)   کبھی راوی کا نقل حدیث میں وہم بھی اختلاف کا سبب بنتا ہے ،مثلاً کسی راوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کو قران نقل کیا تو کسی نے تمتع تو کسی نے افراد نقل کیا ۔

  (٤)   اسباب وعلل کی تعیین میں اختلاف بھی اس کا سبب بنتا ہے ۔

  (۵)   لفظ مشترک کے معنی میں تعیین میں اختلاف ،مثلاً قرء کو امام ابوحنیفہ نے حیض پر اور امام شافعی نے طہر پر محمول کیا ہے۔

  (٦)   حدیث کی بعض اقسام کے قبول ورد میں اصولی اختلاف بھی اس کا سبب بنتا ہے ،مثلاً مرسل روایات امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک معتبر ہیں ،امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک نہیں ہے ۔

  (۷)   بعض روایات کی ترجیح کا اختلاف ،مثلاًامام ابوحنیفه ؒنے رفع یدین کے مسئلے میں ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث کو اور امام اوزاعی ؒنے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے ،امام ابوحنیفہ ؒنے فقیہ راویوں پر مشتمل سند کو زیادہ اہمیت دی اور امام اوزاعی ؒ نے سند عالی کو مقدم رکھا ،یہی سلف صالحین کا طریقہ کار رہا ہے۔

  (۸)   بسا اوقات ایک روایت منسوخ ہوتی ہے ،دوسری ناسخ ،لیکن ناسخ ومنسوخ کی تعیین میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے،فقہی نقطہ نظر کااس پر اثر ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ (اختلاف ائمہ اور حدیث نبوی مترجم :اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمہ از شیخ عوامہ)

ان کے علاوہ دیگر بہت سے اسباب کی وجہ سے ائمہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا ہے،جب اختلافات کو بیان کریں تو ان ائمہ کا مکمل احترام ملحوظ خاطر رکھیں ان کی عظمت ووقار کو پیش نظر رکھیں تاکہ کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکلے جو  ان کے عظمت ا ور وقار کو مجروح کرنے سے پہلے خود متکلم کے وقار کو مجروح کردے اورحدیث کو اپنے مذہب ومسلک کے تابع بنانے کے بجائے اپنے مذہب ومسلک کو حدیث کے تابع بنانے کی کوشش کرے ۔

  ائمہ کے درمیان اختلاف کی وجوہات واسباب بیان کرنے والی چند کتابیں: 

  •   (۱)   رفع الملام عن الائمة الأعلام ۔ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ
  •   (۲)   الإنصاف فی سبب الإختلاف ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
  •   (۳)   أثر الحدیث الشریف فی اختلاف الأ ئمة ۔شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ تعالی
  •   (٤)   اختلافِ ائمہ ۔حضرت شیخ زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ۔

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے