فن حدیث کے ضروری مباحث قسط (۲۱)

فن حدیث کے ضروری مباحث قسط (۲۱)

حل سند کے لئے ضروری امور میں سے   دسواں امر 

  سند وحدیث پر صحیح،ضعیف،موضوع وغیرہ کا حکم لگانا 

  قارئین کرام !   گذشتہ دو قسطوں میں کسی سند پر حکم لگانے کے طریقۂ کار کی وضاحت پر مشتمل ھناد بن السری کی مثال پیش کی گئی۔  اب  متن پر حکم لگانے کے مراحل ذکر کئے جاتے ہیں ۔   متن کی تحقیق کا طریقۂ کار اور اس کے مراحل  متن کی تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی تحقیق کرنا کہ یہ متن اسباب ضعف سے صحیح وسالم ہے یا نہیں ہے۔علماءکے اقوال کے مطابق متنِ حدیث میں ضعف پیدا کرنے والے اسباب شذوذ اور علت میں منحصر ہیں ۔ خلاصہ یہ ہےکہ متن کے دراسہ میں اس بات کی تحقیق کرلی جائے کہ یہ حدیث شذوذ وعلت سے صحیح وسالم ہے یا نہیں ہے؟ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حدیث کی سند کے رجال ثقات ہو تو حدیث بھی صحیح ہوتی ہے اور سند کے رجال ضعیف  ہوں تو حدیث بھی ضعیف ہوتی ہے اور سند کے رجال کذاب ہو تو حدیث بھی موضوع ہوتی ہے۔    لیکن   کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سند کے رجال تو ثقات ہوتے ہیں لیکن متن حدیث میں کوئی ایسی خامی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف ، متروک ومردود یا موضوع ہوجاتی ہے۔  اسی طرح کبھی سند کے رجال میں کوئی کذاب ہوتا ہے لیکن وہی حدیث کسی ایسی سند سے سے مروی ہوتی ہے جس کے رواۃ ثقہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حدیث تو صحیح ہوتی ہے لیکن کذاب والی سند پر وضع کا حکم لگتا ہے۔  اس لیے کہ باحث کو چاہیے کہ سند کےدراسہ وتحقیق کے بعد متن حدیث کو بھی دراسہ کے مراحل سے گذار کر اس کے صحیح ، ضعیف اور موضوع ہونے کا فیصلہ کرلے، یعنی اس بات کی تحقیق کرلے کہ یہ متن شذوذ وعلت سے صحیح وسالم ہے یا نہیں ہے؟   وہ اسباب جو متن کے ضعف کو واجب کرنے والے ہیں۔ 

(الف)   متن میں شذوذ کا واقع ہونا   

شذوذ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ثقہ چند ثقات کی مخالفت کرے یا ثقہ اپنے سے زیادہ اوثق کی مخالفت کرے یہ مخالفت چند اعتبار سے ہوتی ہے۔ 
  • (۱)   متن میں ایسی زیادتی کردینا جس کی وجہ سے حکم بدل جائے ۔
  • (۲)   متن میں قلب (الٹ پھیر) کا واقع ہوجانا۔
  • (۳)   متن میں اضطراب یعنی رواۃ الگ الگ نقل کریں ۔
  • (٤)    متن میں ادراج کردینا ۔
  • (۵)    تصحیف وتحریف۔
  ان تمام عیوب کا علم دوطریقوں سے ہوسکتا ہے۔     (۱)   حدیث کے مختلف طرق واسانید کو جمع کیاجائے اور ان کا باہم مقارنہ کیا جائے یہاں تک کہ یہ بات واضح ہوجائے کہ راوی دوسرے ثقات یا اوثق کی مخالفت کررہا ہے یا موافقت کررہا ہے۔   (۲)   اس حدیث کے متن کے بارے میں کتب علل حدیث اور شروحات میں اقوالِ علماء کو دیکھا جائے ۔ شذوذ سے متعلق بات مکمل ہوئی، اب متن میں ضعف پیدا کرنے والے دوسرے سبب سے متعلق کچھ باتیں ذکر کی جاتی ہے۔

(باء ) متن کا معلول ہونا 

علت وہ سبب خفی ہے جو متن حدیث میں عیب پیدا کردے۔  مندرجۂ ذیل اسباب کے پائےجانے کی وجہ سے متن معلول ہوجاتا ہے۔
  • (۱)   متن حدیث میں کسی ایسی بات کا ذکر ہوجو قرآن مجید کے مخالف ہو۔ 
  • (۲)    متن حدیث میں کوئی ایسی بات ذکر کی گئی ہو جو شریعت کے مقاصد کے خلاف ہو۔
  • (۳)    متن حدیث میں ایسی کسی بات کا ذکر ہو جو تاریخی صحیح واقعہ کے خلاف ہو۔ 
  • (٤)    متن حدیث میں ایسی کوئی بات ہو جو عقل سلیم کے خلاف ہو اور اس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
  • (۵)   متن حدیث میں کوئی ایسی بات ہو جو حس اور مشاہدہ کے خلاف ہو ۔
  • (٦)    حدیث میں کوئی ایسی بات ہو کہ اس کے معنی کی رکاکت وقار نبویﷺ کے خلاف ہو ۔
  • (۷)   حدیث مجازفت پر محمول ہو یعنی اس میں کسی معمولی نیکی پر غیر معمولی اور مبالغہ کے ساتھ ثواب بتلایا گیا ہو یا کوئی ایسی بات بیان کی گئی ہو جو محیر العقول ہو۔

متن کے دراسہ کی مثال   

متن کے دراسہ کی مثال کے طور پر ہم اسی حدیث کو اختیار کریں جس حدیث کو ہم نے دراسةالسند کی مثال کے طور پر ذکر کیا تھا۔ یعنی ھناد بن سری کے طریق سے منقول حدیث   أعددت لعبادی الصالحین مالاعین رأت ولا أذن سمعت ولاخطر علی قلب بشر  جیسا کہ ماقبل میں گذرا کہ جب ہم  نے اس حدیث کی سند کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اب متن کا دراسہ کرنے کے لیے اس حدیث کے تمام طرق کو جمع کرنا ہوگا اور شذوذ وعلت کی تحقیق کے لیے اس حدیث کے بارے میں ائمۂ جرح وتعدیل کے اقوال کو تلاش کرنا ہوگا۔ جب ہم نے حدیث کے تمام طرق کو جمع کیا تو معلوم ہوا کہ اس حدیث کے الفاظ میں کسی طریق میں نہ کوئی زیادتی واقع ہوئی ہے اور نہ کمی واقع ہے اور نہ رکاکت پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے اس حدیث کا متن شذوذ وعلت سے صحیح وسالم ہے۔   خلاصہ یہ نکلا کہ یہ حدیث سند اور متن دونوں اعتبار سے صحیح ہے۔   یہ مطلوبہ حدیث کا دراسہ ہوا پھر حدیث کے متابعات وشواہد کا  اسی طرز کے مطابق دراسہ کیا جائے، پھر مجموعی اعتبار سے حکم لگایا جائے۔

ایک اہم تنبیہ 

 مذکورہ قواعد اور حدیث پر حکم لگانے کا طریقہ ان احادیث سے متعلق ہے   جو احادیث مع اسناد   ہمارے پیش نظر ہو. بہت سی مرتبہ باحث کے سامنے ایسی حدیث ہوتی ہے جس کی کوئی سند نہیں ہوتی ہے ایسی حدیث کے بارے میں دو اصول ہیں.    (١)   متن حدیث کے موضوع ہونے کی محدثین نے چند علامتیں ذکر کی ہیں جن کا ماقبل میں ذکر کیا گیا اگر ان علامات میں سےکوئی علامت پائی جائے تو متن حدیث پر وضع کا حکم لگایا جاسکتا ہے،   (٢)   حدیث میں وضع کی کوئی علامت نہ پائی جائے اور اس کی کوئی سند بھی ہمارے پاس موجود نہ ہو تو حدیث کے موضوع ہونے کی جو علامات محدثین نے بیان کی ہے اس میں ایک بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہمارے سامنے ایسی کوئی حدیث آجائے جس کا وجود متقدمین کی کتابوں میں نہ ہو۔   اس قاعدہ سے دھوکہ کھاکر کسی ایسی حدیث پر وضع کا حکم لگانے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے جس کا وجود متقدمین کی کتابوں میں نہ ہو،اس لیےکہ ابھی بھی متقدمین کی بہت سی کتابیں مخطوطات کی شکل میں کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ اور بہت سی کتابیں حوادث زمانہ کی نذر ہوگئیں. جیسے   مسند بقی بن مخلد   (م:٢٧٦)جسے سب سے بڑا مسند تصور کیا جاتا ہے مکمل مفقود ہے، اسی طرح امام طبرانی  (م: ٣٦٠)نے المعجم الکبیر سے علی حدہ مکثرین فی الحدیث صحابہ کے مسانید تالیف کئے جو ابھی بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس طرح اور بہت سی کتابیں مفقود ہیں، اس لیے احتمال اس بات کا موجود ہے کہ وہ حدیث جس کا ہمیں موجودہ کتابوں میں سراغ نہیں لگ رہا ہے وہ ان کتابوں میں ہوں اس لئے موضوع ہونے کا حکم لگانے کے بجائے یا انہیں موضوع سمجھنے کے بجائے   "لم أجدہ ”   لکھے یا کہے جیسے کہ حافظ ابن حجر اور حافظ زیلعی وغیرہ نے یہ طریق اختیار کیا ہے۔ یا یہ بات لکھے کہ جب تک اس حدیث کی کوئی معتبر   سند دستیاب نہ ہو وہاں تک  اسے بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے  

  باحث سے گذارش 

 سند وحدیث پر کوئی حکم لگانا ایک صبر آزما اور مشقت بھرا عمل ہے، اس کےلیے علوم حدیث کی بہت کچھ معلومات کی ضرورت ہوتی ہے، صرف ان قسطوں  کو پڑھ کر حدیث پر حکم لگانے کی جسارت نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ قسطیں  تو صرف راہ منزل دکھانے کا کام دے گی، اس کے لیے اس فنمیں لکھی گئی دیگر کتابوں کا بغائر مطالعہ کرنا چاہیے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ صرف کتابوں میں حدیث پر حکم لگانے کا طریقہ پڑھ کر حدیث پر تحت حکم لگانے کی جسارت بھی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس فن کے ماہرین کی صحبت میں رہ کر اس کی مشق وتمرین کرلینی چاہیے۔ یا ان سے رجوع کرتے رہنا چاہئے  حل سند کے لئے دس ضروری امور مکمل ہوئے فللہ الحمد اب ان شاء اللہ حل متن سے متعلق ضروری امور ذکر کئے جائیں گے

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے