حل سند کے لئے ضروری امور میں سے دسواں امر
سند وحدیث پر صحیح،ضعیف،موضوع وغیرہ کا حکم لگانا
اسناد کی تحقیق کی وضاحت کے لئے ایک آسان سی مثال ملاحظہ فرمائیں
قال ھناد بن السری حدثنا أبومعاویة عن الأعمش عن أبی صالح عن أبی ھریرة ؓ قال قال رسول اللهﷺ یقول الله تعالی أعددت لعبادی الصالحین مالا عین رأت ولا أذن سمعت ولاخطر علی قلب بشر
قال أبوہریرۃ ؓ ومن بله مااطلعکم علیه فلا تعلم نفس ماأخفی لھم من قرۃ أعین جزاءا بما کانوا یعملون
اس سند کی تحقیق کےمراحل
رواۃ کی تعیین
(۱) ھناد بن السری
ھناد بن السری کی تعیین کےلیے ہم نے تہذیب الکمال کے حرف الھاء کی مراجعت کی تو (۳۰/۳۱۲ : ٦٦٠٣ )میں ھناد بن السری کے متعلق مندرجۂ ذیل معلومات مذکور تھی۔
عخ م ٤ : ھناد بن السری بن مصعب ۔۔۔۔۔ التمیمی الدارمی أبوالسری الکوفی
روی عن ۔۔۔۔وأبی معاویة الضریر۔۔۔۔۔ ومات ستة ۲٤۳ھ
وأخرج له البخاری فی خلق أفعال العباد ومسلم وأصحاب السنن الأربعة
(۲)أبومعاویة
یہ کنیت ہے، ھناد بن السری کے ترجمہ سے معلوم ہوا کہ ان کے ایک شیخ ابومعاویة الضریر ہے، ابو معاویة الضریر کے نام کو جاننے کے لیے ہم تہذیب الکمال میں باب الکنی کی مراجعت کریں
گے
مراجعت کے بعد (٣٤/۳۰۳) معلوم ہوا کہ ابومعاویہ الضریر کا نام محمد بن خازم ہے اور وہاں لکھا ہے کہ ان کے حالات ناموں میں گذر گئےہیں، پھر ہم نے فصل المحمدین کی مراجعت کی، اس لیے کہ حافظ مزی نے حرف المیم میں ان لوگوں کو مقدم کیا ہے جن کا نام محمد ہیں۔ ہم نے ۲۵/۱۲۳ : ۵۱۷۳ پر محمد بن خازم کاترجمہ مندرجۂ ذیل طریقہ پر پایا۔
ع۔محمد بن خازم التمیمی السعدی أبومعاویة الضریر الکوفی روی عن۔۔۔۔سلیمان الأعمش وروی عنه ۔۔۔ھناد بن السری ۔۔۔۔ مات ستۃ ۱۹۵
وأخرج له الجماعة (یعنی ان کی احادیث صحاح ستہ میں ہیں۔)
(۳)الأعمش
اعمش یہ لقب ہے ، ہمیں اعمش کے شاگرد محمد بن خازم ابو معاویہ کے ترجمہ سے معلوم ہوگیا ہے کہ ان کے شیوخ میں سلیمان الأعمش ہیں.
معلوم ہوا کہ اعمش کا نام سلیمان ہے، مکمل نام معلوم کرنے کے لیے ہم تہذیب الکمال میں ”فصل فیمن اشتھر بلقب اونحوہ“ کی مراجعت کریں گے .
مراجعت کے بعد ۳۵/۳۵ میں ہم نے اس طرح پایا الأعمش : سلیمان بن مهران
پھر ہم نے حرف السین میں سلیمان بن مہران کا نام تلاش کیا تو ہم نے :١٢/٨٦ ۲۵۷۰ )پر سلیمان بن مہران کے بارے میں مندرجۂ ذیل وضاحت پائی۔
ع ۔سلیمان بن مهران الأسدی الکاهلی مولاھم أبو محمد الکوفی الأعمش روی عن ۔۔۔ذکوان أبی صالح السمان وأبی صالح مولی أم ہانی ۔۔۔۔وروی عنه۔۔۔۔ أبو معاویة الضریر۔۔۔۔مات ۱٤۸
روی له الجماعة (یعنی اعمش صحاح ستہ کے راوی ہیں)
(٤) أبوصالح
یہ کنیت ہے۔ ابو صالح سے مراد کون ہیں؟ اس کی تعیین میں تھوڑی دشواری ہوگی، اس لیے کہ ابوصالح کے شاگرد سلیمان اعمش کے ترجمہ میں دو ایسے ان کے شیوخ ہیں جن کی کنیت ابوصالح ہے، جیسا کہ ہم نے اعمش کے ترجمہ میں دیکھا وہ دو یہ ہیں
(۱) ذکوان السمان
(۲) ابوصالح مولی ام ہانی ۔
اب ہم حضرت ابوہریرہ ؓ کا ترجمہ دیکھیں گے ، ہوسکتا ہے کہ ان کے شاگردوں میں دونوں میں سے کوئی ایک ہو جس سے وہ متعین ہوجائے۔ لیکن حضرت ابوہریرہ ؓ کے ترجمہ ٣٤/٣٦٦ : ۷٦۸۱) کی مراجعت کے بعدپریشانی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے کہ ان کے شاگردوں میں چند ایسے اشخاص میں جن کی کنیت ابوصالح ہے اور وہ یہ ہیں.
(۱) ابوصالح اشعری
(۲) ابوصالح حنفی
(۳) ابوصالح خوزی
(٤) ابوصالح سمان
(۵) ابوصالح مولی ضباعة ۔
ابوهریرہؓ کے شاگردوں میں ابوصالح مولی ام ہانی کا ذکر نہیں ہے، حالاں کہ ابوصالح کے اساتذہ میں ابوہریرہ ؓ بھی شامل ہیں جیسا کہ ابوصالح مولی ام ہانی (٦/٤ : ٤٣٦) کے ترجمہ میں روی عن کی فہرست میں ابوہریرة ؓ کا نام بھی موجود ہیں۔
شیوخ وتلامذہ کے طریق سے سے ابوصالح کی تعیین میں ناکام ہونے کے بعد ہم دوسرے طریقہ سے تعیین کی کوشش کریں گے اور وہ دوسرا طریقہ تخریج حدیث کا طریقہ ہے۔ ہم نے جب اس حدیث کی تخریج کی تو معلوم ہوا کہ یہ حدیث بخاری ومسلم میں اعمش عن أبی صالح کے طریق سے موجود ہے، پھر ہم نےتہذیب الکمال میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کی کنیت ابوصالح ہے، ان میں سے صرف ابوصالح ذکوان سمان ہی بخاری ومسلم کے راوی ہیں۔
چناں چہ معلوم ہوا کہ مذکورہ سند میں ابوصالح سے مراد ابوصالح ذکوان سمان ہیں۔اب ہم نے تہذیب الکمال کےحرف الذال کی مراجعت کی تو وہاں ابوصالح ذکوان کے بارے میں مندرجۂ ذیل معلومات ہیں ۔
ع – ذکوان أبوصالح السمان الزیات المدنی۔۔۔۔ کان یجلب السمن والزیت إلی الکوفة۔۔ روی عن ۔۔۔ أبی ھریرۃؓ وروی عنہ۔۔۔ سلیمان الأعمش مات سنة ۱۰۱ وبالمدینة
(۵) أبوهریرۃؓ
صحابی مشہور ، ان کا ترجمہ تہذیب الکمال٣٤/٣٦٦ : ۷٦۸۱ پر موجود ہیں۔
دوسرا مرحلہ
رواۃ کے عادل وضابط ہونے کی تحقیق
تعیین رواۃ کے بعد رواۃ کی عدالت وضبط کے اعتبار سے تحقیق کا مرحلہ آتا ہے۔
مذکورہ سند میں واقع رجال کی تحقیق کےلیے ہم آسان طریقہ کے مطابق امام ذهبی کی الکاشف خزرجی کی الخلاصة اور حافظ ابن حجرؒ کی تقریب التہذیب کی مراجعت کرتےہیں۔
نوٹ : ان تین کتابوں کا ذکر آسانی کے پیش نظر کیا گیا ہے ورنہ اس فن میں لکھی گئی طویل کتابوں کی مراجعت بھی مفید ثابت ہوتی ہے ۔
(۱) ھناد بن السری
قال الذھبی فی الکاشف : الحافظ الزاھد
وقال الخزرجی فی الخلاصة : الحافظ الصالح
وثقه النسائی
وقال ابن حجر فی التقریب : ثقة
تینوں ائمہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہےکہ ھناد بن السری ثقہ ہیں۔
(۲) ابومعاویة محمد بن خازم
قال الذھبی فی الکاشف : الحافظ ثبت فی الأعمش وکان مرجئا
قال الخزرجی فی الخلاصة : أحد الأعلام
قال أحمد : کان فی غیر الأعمش مضطربا
وقال العجلی : ثقة یری الإرجاء
وقال یعقوب بن شیبة : ربما دلس
قال ابن حجر فی التقریب : ثقة أحفظ الناس لحدیث الأعمش وقد یھم فی حدیث غیرہ وقد رمی بالإرجاء
حافظ ابن حجر ؒ نے اپنی کتاب تعریف أهل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس میں محمد بن خازم کو دوسرے طبقہ میں ذکر کیا ہے۔ دوسرے طبقہ والوں کی تدلیس ان کی امامت اور قلت تدلیس کی وجہ سےائمۂ جرح وتعدیل کے نزدیک قابل برداشت ہے اور دوسرے طبقہ والے اکثر ثقہ ہی سے تدلیس کرتے ہیں۔
ان اقوال سے نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ محمد بن خازم ہماری اس روایت میں ثقہ ہیں، اس لیے کہ ان کی یہ روایت اعمش سے ہے اور اعمش سےنقل کرنے میں بقول ابن حجر وہ احفظ الناس ہیں۔
جہاں تک ارجاء کی تہمت کی بات ہے تو یہ بھی نقصان دہ نہیں ہے اس لیے کہ حدیث کا مضمون ارجاء کی دعوت پر مشتمل نہیں ہے.
(۳) سلیمان بن مہران أعمش
قال الذھبی فی الکاشف : الحافظ أحد الأعلام
قال الخزرجی فی الخلاصة : أحد الأعلام الحفاظ القراء
قال ابن عیینة : کان أقرأھم وأحفظهم وأعلمھم
وقال عمرو بن علی : کان یسمی المصحف لصدقه
وقال العجلی : ثقة ثبت
وقال النسائی : ثقة ثبت وعدہ فی المدلسین
قال ابن حجرؒ فی التقریب : ثقة حافظ عارف بالقراءات ورع لکنه یدلس
حافظ ابن حجرؒ تعریف أهل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس ( ص: ٦۷) دوسرے طبقہ میں اعمش کا ذکر کیا ہے جن کی تدلیس قابل برداشت ہے۔
ان اقوال کی روشنی میں یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ اعمش ثقہ ہے اور تدلیس کا حکم ان کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔
(٤) أبوصالح ذکوان السمان الزیات
قال الذهبی فی الکاشف: هو من الأئمة الثقات
قال الخزرجی فی الخلاصة: قال أحمد : ثقة ثقة
قال ابن حجر فی التقریب : ثقة ثبت
ان اقوال کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ابوصالح ثقہ ہیں.
(۵) ابوهریرة ؓ
قال الذهبی فی الکاشف : کان حافظا مفتیا ذکیا متفیا صاحب صیام وقیام ولی إمرۃ المدینة توفی سنة ۵۷
وقال الخزرجی فی الخلاصة : الحافظ له خمسة اٰلاف وثلاثمأۃ وأربعة وسبعون حدیثا (٥٣٧٤)
وقال ابن حجر فی التقریب الصحابی الجلیل حافظ الصحابة
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوگیا کہ اس سند کے تمام رجال عادل وضابط ہیں۔
تیسرا مرحلہ
سند کےمتصل ہونے کی تحقیق
سند کے متصل ہونے کی تحقیق کے لیے ان الفاظ وکلمات کو دیکھا جائےگا۔جنہیں مذکورہ سند کے رواۃ نے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح اس سند کے راویوں کے ایک دوسرے سے سماع سے متعلق ائمۂ جرح وتعدیل کے اقوال کی طرف بھی مراجعت کی جائےگی۔
▪️اس سند میں ھناد نے اپنے شیخ ابومعاویہ سے نقل کرتے وقت حدثنا کا لفظ استعمال کیا ہے، یہ صراحۃً سماع پر دلالت کرتا ہے
▪️ دوسرے رواۃ (ابومعاویہ الضریر ، اعمش، ابوصالح) نے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو سماع اور غیر سماع دونوں کا احتمال رکھتے ہیں۔ یہ الفاظ بھی سماع پر ہی محمول کیے جاتے ہیں،جب کہ استعمال کرنے والے تدلیس میں مشہور نہ ہو اور اگر ان الفاظ وکلمات کو استعمال کرنے والے تدلیس میں مشہور ہو تو پھر دیکھا جائے گا کہ وہ مدلسین کے پہلے اور دوسرے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کی تدلیس ائمۂ جرح وتعدیل کے نزدیک قابل برداشت ہوتی ہے یا ان کا تعلق تیسرے، چوتھے اور پانچویں طبقے سے ہیں جن کی معنعن روایت مقبول نہیں ہوتی۔
کتب تراجم دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ابومعاویہ الضریر اور سلیمان اعمش دونوں کبھی کبھی ثقات سے تدلیس کرتے ہیں اور یہ دونوں مدلسین کےدوسرے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی معنعن روایت معتبر ہوگی اور اس عنعنہ کو بھی اتصال پر ہی محمول کیا جائےگا۔
جہاں تک ان رواۃ کے ایک دوسرے سے سماع کے متعلق علمائے جرح وتعدیل کے اقوال کی بات ہے تو وہ اقوال کافی مقدار میں موجود ہیں۔
مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مذکورہ سند متصل ہے۔
چوتھا اور پانچواں مرحلہ
سند کا شذوذ وعلت سے صحیح وسالم ہونا
اس مذکورہ حدیث کی تخریج اور کتب علل دیکھنےکے بعد ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوگئی اس روایت میں موجود رواۃ نے نہ ثقات کی مخالفت کی ہے نہ اوثق کی مخالفت کی ہے اور نہ ضعفاء کی مخالفت کی ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ سند شذوذ وعلت سے صحیح سالم ہے۔
خلاصہ
مذکورہ بالا تمام تصریحات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سند کے تمام رواۃ ثقات ہیں۔ سند متصل ہے اور سند شذوذ وعلت سے صحیح وسالم ہے، اس لیے ہم اس سند پر صحیح الاسناد ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں۔

0 Comments