فن حدیث کے ضروری مباحث قسط ۱۹

فن حدیث کے ضروری مباحث قسط ۱۹

حل سند کے لئے ضروری امور میں سے  دسواں امر 

سند وحدیث پر صحیح،ضعیف،موضوع وغیرہ کا حکم لگانا 

قارئین کرام ! 

گذشتہ قسط میں یہ بات بیان کی گئی کہ جہاں تک ہوسکے ائمۂ سابقین کی طرف سے احادیث پر لگائے گئے  احکام کو تلاش کیا جائے اور انہیں کو نقل کیا جائے لیکن اگر ائمۂ سابقین میں کسی کا حکم نہ ملے یا جو  حکم لگایا گیا ہے وہ کسی متساہل امام کی طرف سے ہے  جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے تو پھر مندرجۂ ذیل طریقہ کے مطابق سند ومتن پر حکم لگانا چاہئے

  سند اور حدیث پر حکم لگانے کےمراحل 

  •   (۱)   حدیث کی مکمل تخریج
  •   (۲)   رجال سند کی تعیین
  •   (۳)   رجال سند کی عدالت اور ان کے ضابط ہونے کی تحقیق
  •   (٤)    سند کے متصل ہونے کی تحقیق
  •   (۵)    سند میں واقع شذوذ کی تحقیق
  •   (٦)    سند میں واقع علت کی تحقیق

 متنِ حدیث   پر باعتبار صحت، حسن ، ضعف اور وضع کا حکم لگانے کے لیے مندرجۂ ذیل مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔

  •   (۱)    متن میں پائی جانے والے شذوذ کی تحقیق کرنا
  •   (۲)    متن میں پائی جانے والی علت کی تحقیق کرنا

نوٹ

:  سب سے پہلے مطلوبہ حدیث کی سنداور متن پر حکم لگایا جاتا ہے پھر مطلوبہ حدیث کی متابعات وشواہد پر حکم لگایا جاتا ہے اور پھر مجموعی اعتبار سے حکم لگایا جاتا ہے۔

اب ان تمام مراحل کو تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے۔

  (١)حدیث کی مکمل تخریج کرنا 

اب تخریج حدیث کا کام جدید آلات کے ایجاد ہونے کی وجہ سے آسان ہوگیا ہے ،موبائل کے ذریعے تخریج کے لئے مختلف ایپس اور گوگل کی مدد لی جاسکتی ہے اور کمپوٹر سے تخریج کے لئے مختلف پروگرام سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے ۔  

  (٢) رجال اسناد کی تعیین 

رجال اسناد کی تعیین کے طرق ماقبل    قسط ()  میں  بیان کئے گئے ہیں وہاں ملاحظہ فرمالیں  

  (٣)  رجال سند کی عدالت اور ان کے ضابط ہونے کی تحقیق 

رجال سند کی عدالت اور ان کے ضابط ہونے کی تحقیق سے متعلق تفصیلات   قسط ()  ذکر کی گئیں .

  (٤)  سند کے متصل ہونے کی تحقیق   

سند کے متصل ہونے کی تحقیق   قسط ()  میں ذکر کی گئی ہے .

  (٥)  سند میں واقع شذوذ کی تحقیق 

▪️شذوذ کا مطلب یہ ہےکہ ثقہ راوی چند ثقات یا اپنے سے اوثق راوی کی مخالفت کرے، سند میں واقع شذوذ کا علم حدیث کے متعدد طرق کو جمع کرنے کےذریعہ ہوتا ہے.

▪️جب پیش نظر سند  ان اسانید کے موافق ہوتو اس سند کے شذوذ سے صحیح وسالم ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے .

▪️ اگر پیش نظر سند  ان اسانید کے مخالف ہو بایں طور کہ کوئی راوی زیادہ ہو یا کم ہو تو پیش نظر سند کی مزید تحقیق کے بعد اس پر شاذ کا حکم لگایا جاسکتا ہے اور دوسری اسانید پر محفوظ کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔

▪️شذوذ کا علم ان کتابوں کی مراجعت سےبھی ہوسکتا ہے جو علل سے متعلق تالیف کی گئی ہوں جن کا تذکرہ آئندہ سطور میں کیا جارہا ہے۔

▪️اگر پیش نظر حدیث وسند ان میں موجود ہے اور کسی شذوذ کا ذکر کیا گیا ہے تو باحث وہاں سے شذوذ کو نقل کرسکتا ہے۔

  (٦)  سند میں واقع علت کی تحقیق 

علت اس سبب خفی کو کہاجاتا ہے جو سند کو مخدوش کردے جیسے راوی سے وہم ، غلطی، نسیان، انقطاع وغیرہ ہونا۔ سند میں واقع علت کی تحقیق، حدیث کی تمام اسانید کا مقارنہ کرنےاور کتب علل کی مراجعت سے ہوتی ہے۔

  معلل کی معرفت کیسے ہو؟ 

▪️علم علل کے ان ماہرین نے اپنی جودت طبع ، حذاقت اور نبض شناسی کی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے جو کچھ کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں، تاریخ نے اپنے سینوں میں انہیں محفوظ اور باقی رکھا ہے۔ 

▪️علل احادیث پر کلام کرنے والے علماء اگرچہ کم ہیں مگر جو کچھ بھی انہوں نے علمی ورثہ چھوڑا ہے وہ انتہائی بیش قیمت ہے۔

▪️ علمائے جرح وتعدیل نے اگر ہمارے لیے ضعیف رجال کی معرفت کو آسان بنایا ہے تو ان حضرات نے ہمارے سامنے ثقہ روات کی ان احادیث کو چھانٹ کر رکھ دیا ہے، جن میں انہوں نے غلطی کی ہے دونوں کا فرق واضح ہے.

▪️چناں چہ جب آپ سے کہا جائے گا فلاں راوی ضعیف ہے تو آپ اس کی تمام احادیث پر ضعف کا حکم لگادیں گے چاہے وہ جتنی بھی ہوں،اسی طرح جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ راوی ثقہ ہے تو اس کی تمام مرویات پر آپ صحت کا حکم لگادیں گے، ان کی تعداد چاہے جتنی ہو علاوہ ان احادیث کے جن کا ماہرین علم علل نے استثناء کردیا ہو ان ہی استثناء ات کو جاننے کی ضرورت ہے اور خدا کا شکر ہے وہ محفوظ اور مدون شکل میں موجود ہیں۔

▪️معلل احادیث کا سب سے بڑا مجموعہ عجوبۂ روزگار امام دار قطنی کی کتاب    "العلل الواردۃ فی الاحادیث النبویة”   ہے.

▪️ اب تک اس کی گیارہ جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آگئی ہیں ۔ ترتیب مسانید صحابہؓ پر ہے ،صحابیؓ کے نام کی مدد سے اس میں روایت کو دیکھا جاسکتا ہے، اگر موجود ہو تو جو بھی علت دارقطنی نے بیان کی ہوگی باحث اسے نقل کرسکتا ہے۔

اگر مطبوعہ حصہ میں اس صحابیؓ کا مسند نہ ملے تو چوں کہ کتاب مکمل موجود نہیں ہے، اس لیےدوسری کتب علل کی جانب مراجعت کی جائے

▪️اس فن کی دوسری اہم ترین کتاب   ابن ابی حاتم   کی    "علل الحدیث”   ہے، جس میں فقہی ترتیب پر احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور ابن ابی حاتم نے اپنے والد ابوحاتم رازی سے پوچھ کر احادیث کی علتوں کو اس کتاب میں جمع کردیا ہے۔

▪️تیسری بہت اہم کتاب   امام ترمذی  ؒ کی کتاب    "العلل الکبیر”   ہے جس کی اصل ترتیب تو معلوم نہیں،کیاتھی؟ قاضی ابوطالب نے اس کو جامع ترمذیؒ کے ابواب پر مرتب کردیا ہے جس کی وجہ سے استفادہ آسان ہوگیا ہے ، اس میںترمذی ؒ نے خود بھی علتوں پر کلام فرمایا ہے اور عموماً   امام بخاری ؒ ، امام دارمی  ؒ وغیرہ ماہرین علل کے حوالہ سے علتیں نقل بھی فرمائی ہے۔ 

▪️ان کے علاوہ مندرجۂ ذیل کتابوں کی بھی مراجعت کرنی چاہیے۔

  •   (٤)    العلل ومعرفة الرجال  :  امام یحیی بن معین  (م : ۲۳۳)
  •   (۵)    علل الحدیث  :  امام علی بن المدینی  (م : ٢٣٤)
  •   (٦)    العلل ومعرفة الرجال  :  امام احمد بن حنبل  (م: ۲٤۱)
  •   (۷)    المسند المعلل  :  امام یعقوب بن شیبہ  (م:  ۲٦۲)
  •   (۸)    العلل الصغیر  :  امام ترمذی  (م:  ۲۷۹)
  •   (۹)    تھذیب الاٰثار  :  ابن جریر طبری  (م  :  ۳۱۰)
  •   (۱۰)    العلل المتناھیة فی الأحادیث الواھیة  :  ابن جوزی  (م  :  ۵۹۷)
  •   (۱۱)    التاریخ الکبیر  :  امام بخاری  (م  : ٢٥٦)
  •   (۱۲)    المسند المعلل  :  ابوبکر بزار  (م  :    )
  •   (۱۳)    المعجم الأوسط  :   امام طبرانی  (م  :  ۳٦۳)

چوں کہ کتب تخاریج کا اصل موضوع ہی احادیث کے درجات کو بیان کرنا اور ان کی علتوں کو تلاش کرکے ذکرکرنا ہے، اس لیے   نصب الرایة للزیلعی ، التلخیص الحبیر لابن حجرؒ”   بلکہ ابن حجر کی حدیثی تحقیقات کا مجموعہ    "موسوعة الحافظ ابن حجر الحدیثیة”   کی بھی ضرور مراجعت کرنی چاہیے، اگر ان مصادر میں زیر بحث حدیث کی کوئی علت مل جائے تو ذکر کردی جائے ورنہ گمان غالب یہ ہے کہ اس حدیث میں کوئی علت نہیں ہے۔  (حدیث اور فہم حدیث مع اضافہ)

 

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے