فن حدیث کے ضروری مباحث قسط (۱۸)

فن حدیث کے ضروری مباحث قسط (۱۸)

حل سند کے لئے ضروری امور میں سے دسواں امر

گذشتہ قسطوں  حل سند کے لئے ضروری امور میں سے نواں امر (   رواۃ کی عدل وضبط کے اعتبار سے تحقیق   )بیان کیا گیا ۔

اب حل سند کے لئے ضروری امور میں سے دسواں امر بیان کیا جاتا ہے 

(١٠) سند حدیث پر صحیح ،حسن ،ضعیف ،موضوع وغیرہ کا مناسب حکم لگانا 

سندوحدیث پر حکم لگانےکی حقیقت 

سند وحدیث  پر حکم لگانے کا مطلب یہ ہے کہ سلسلۂ سند کے تمام رجال کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے بایں طور کہ کتب رجال کی مدد سے ہرایک کے متعلق یہ معلوم کیا جائے کہ وہ ثقہ ہے یا ضعیف؟ پھر اس کے ضعیف یا ثقہ کہے جانے کی کیا بنیاد ہے؟ راوی کا اس شخص سے جس سے وہ حدیث روایت کررہا ہے سماع یالقاء ثابت ہے یا نہیں جس کی بناء پر سند کے اتصال وانقطاع کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ اطمینان کرلیا جائے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی راوی مدلس ہو اور عنعنہ کے ساتھ روایت کررہا ہے، یا سرے سےاس نے اپنے مروی عنہ کا زمانہ پایا ہی نہیں اور ڈھٹائی کی ساتھ صیغۂ سماع سے روایت کررہا ہے، یہ بات راویوں کی تاریخ ولادت ووفات جاننے سے حاصل ہوسکتی ہے، یا علمائے جرح وتعدیل کی تصریحات سے کہ فلاں راوی نے فلاں راوی سے حدیث سنی ہے یا نہیں سنی ہے۔

اسی طرح نقدِ حدیث کے ماہرین جو اسانید ومتون کے علتوں سے واقف ہوتے ہیں (اور ان علتوں کا ادراک ہر محدث کے بس میں نہیں ہوتا )ان کی کتابوں کا وسعت وگہرائی سے مطالعہ کرکے یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ حدیث کسی باطنی علت یا شذوذ کا شکار نہیں ہے؟

نقد اسناد کی ضرورت کن احادیث میں ہے؟ 

 نقد اسناد کے سلسلہ میں سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ بنیادی طور سے ذخیرۂ احادیث میں دو طرح کی حدیثیں پائی جاتی ہیں۔ 

(۱)   وہ احادیث جو نقد ونظر کے مرحلہ سے گزرچکی ہیں اور ائمۂ محدثین کی جانب سے ان کی صحت وثبوت یا عدمِ ثبوت کا فیصلہ صراحتاً یا دلالۃً ہوچکا ہے۔

(۲)  وہ احادیث جن کے متعلق ائمۂ حدیث کی جانب سے کوئی تصریح ، یادلالت نہیں پائی جاتی جس سے معلوم ہو کہ صحت وضعف کے اعتبار سے ان کا کیا درجہ ہے؟ 

اس دوسری قسم کی اسانید یقیناً نقد ونظر کی محتاج ہیں، محدثین کے مسلمہ اصولوں پر ان کو پرکھنے کے بعد ہی ان کے ثبوت یا عدم ثبوت کی بات کہی جاسکتی ہے۔

جہاں تک پہلی قسم کی احادیث کا تعلق ہے تو ان میں فرق مراتب ہے، کچھ تو وہ ہیں جن پر نظر ثانی کی قطعا گنجائش نہیں ہے، اور کچھ ایسی ہیں جن میں گنجائش موجود ہے، جن احادیث پر ائمۂ سابقین کی جانب سے حکم لگ چکا ہے، بنیادی طور سے ان کی دوقسمیں ہیں۔

(الف) کتبِ صحاح کی احادیث   

جب حدیث کسی ایسی کتاب میں موجود ہو جس کے مصنف نے صحت کا التزام کیا ہو، تو اتنا یقینی ہوگیا کہ اس محدث کے نزدیک وہ شرائط صحت کی جامع ہے اور گمانِ غالب اس کا بھی ہے کہ دیگر حضرات محدثین کے نزدیک بھی وہ صحیح ہے، الا یہ کہ اس میں کوئی علت ایسی ظاہر ہوجائے جو ان پر مخفی رہ گئی ہو، چناں چہ اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گااور ایسا کم ہوتا ہے، اس طرح کی کتابوں میں فرق مراتب بھی ہے۔

(۱)  صحیحین 

یہ کتابیں بحیثیت مجموعی صحت کے اعلی معیار پر ہیں اور باتفاق امت ان کی احادیث صحیح ہیں، چوں کہ بخاری ومسلم کی جلالت شان اور اس فن میں ان کی امامت مسلم ہے، نیز ان کے نقطۂ نظر کا ثمرہ امت میں قبولیت کے ہاتھوں لیا جاچکا ہے، اس لیے اس پر نظر ثانی کی قطعًا گنجائش نہیں ہے۔

(۲) مؤطا امام مالک   

اس کتاب کے متعلق بھی امت کا اتفاق ہے کہ اس میں جو کچھ مرفوع متصل ہے وہ صحیح ہے، بلکہ اس کی بلاغات ومراسیل بھی دیگر ائمہ کے نزدیک سند متصل سے تخریج شدہ ہیں، اسی لیے امام شافعی ؒ نے فرمایا :   مابعدکتاب الله أصح من مؤطا مالک 

 کہ قرآن کریم کے بعد مؤطا مالک صحیح ترین کتاب ہے،

 واضح رہے کہ امام شافعیؒ بخاری ومسلم سے متقدم ہیں، ان کے وقت میں صحیحین کا وجود نہ تھا۔

(۳) مستخرجات صحیحین 

صحیحین پر جو کتابیں بطور مستخرج تیار کی گئی ہیں ان کی بھی احادیث صحت کے وصف سے متصف ہیں، کیوں کہ یہ احادیث عمومًا صحیحین ہی کی ہیں، البتہ بعض احادیث میں کچھ اضافات وتتمات ہوتے ہیں وہ بھی صحیح کے ہی حکم میں ہوتے ہیں الا یہ کہ کسی خاص حدیث میں کوئی علت ہو، جس کی نشاندہی ائمۂ کرام نے کردی ہو، یہ علتیں سند کے اس حصہ میں ہوسکتی ہیں ، جو مستخرج کے مصنف اور شیخین کی سند کے ملتقی (جہاں مستخرج کی سند جاکر جڑتی ہے) کے مابین ہے۔

(٤)  صحیح ابن خزیمہ   

محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیشاپوری (م ۳۱۱ھ) کی یہ کتاب ایک عرصہ تک اہل علم کے درمیان متداول رہی پھر اس کا کچھ حصہ تقریبًا نصف آخر حوادث زمانہ کی نذر ہوگیا،

 شروع کا آدھا حصہ ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی تحقیق سے طبع ہوا ہے۔ (حدیث اور فہم حدیث بحذف )

(۵)  صحیح ابن حبان 

کتاب کی اصل ترتیب تو انواع وتقاسیم پر تھی جس سے استفادہ دشوار تھا، اس لیے ابن بلبان فارسی نے اس کی فقہی ابواب پر ترتیب جدید کردی ، عام طور سے ابن حبان تصحیح حدیث کے سلسلہ میں متساہل مانے جاتے ہیں، لیکن تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حبان کا مسلک متوازن اور مبنی بر حقیقت ہے، ان کے متساہل کہے جانے کی وجہ یہ ہے کہ عموماً وہ ان رجال کی احادیث کا اپنی صحیح میں اخراج کرلیتے ہیں جو مستور ہوتے ہیں اور ائمۂ جرح وتعدیل میں سے کسی نے ان کی توثیق نہیں کی ہوتی ،

ابن صلاح نے ایسے روات کی احادیث کو حجت قرار دینے کا مشورہ دیا ہے،

اسی طرح حافظ ابن حجر ؒ اس طرح کے روات پر عموماً مقبول کا حکم لگاتے ہیں جن کی احادیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔

اگرچہ ابن حبان اور ابن خزیمہ کا موضوع ان احادیث کا جمع کرنا ہے، جو ان کے نزدیک صحیح ہیں لیکن صحیح کے مفہوم میں ان کے نزدیک عموم ہے، چناں چہ ان کی احادیث کی سند اور رجال پر تحقیقی نظر ڈالنے کے بعد محدثین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان کی سب حدیثیں اصطلاحی اعتبار سے صحیح کا مصداق نہیں ہیں بلکہ ان میں حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ کی تعداد بہت ہے ، جس سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان کے نزدیک صحیح سے مراد  ما یصلح للاحتجاج  ہے یعنی وہ جس سے استدلال کیا جاسکے عام اس بات سے کہ وہ صحیح لذاتہ ہو، یا صحیح لغیرہ ہو، یا حسن لذاتہ ہو یا لغیرہ ہو،

 اسی طرح ان دونوں حضرات نے صحت کا حکم لگانے میں حدیث کے شذوذ اور علت سے محفوظ ہونے کی شرط کو بھی ضروری خیال نہیں فرمایا ہے۔

(٦)  صحیح ابن السکن 

ابوعلی سعید بن عثمان بن سعید بن السکن بغدادی (م ۳۵۳ھ) کی تصنیف ہے، جس کا نام  "الصحیح المنتقی”  ہے ، یہ صحیح احادیث کا انتخاب ہے، اگرچہ یہ کتاب مفقود ہے لیکن اس کے حوالہ سے متعدد کتب میں حدیثیں ملتی ہیں۔

(۷)  المستدرک علی الصحیحین للحاکم النیسابوری   

یہ بھی صحیح احادیث کا مجموعہ ہے، مگر حاکم کا تساہل معروف ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، اس لیے تنہا حاکم کی تصحیح کافی نہیں ہے، جب تک کہ دوسرے ناقدین حدیث کی موافقت حاصل نہ ہو، حاکم کی جن احادیث کی تائید دیگر محدثین سے حاصل نہ ہو وہ بے شک اس قابل ہیں کہ نقدِ اسناد کے اصول پر پرکھ کر ان کے صحیح یا حسن یا ضعیف ہونے کا حکم لگایا جائے۔

(۸)  المختارہ للحافظ ضیاء الدین محمد بن عبدالواحد المقدسی  (م: ٦٤۳ھ)    

یہ کتاب صحیحین میں موجود احادیث سے زائد صحیح احادیث کا ذخیرہ ہے، اور حافظ ضیاء نے بہت سی ایسی احادیث پر صحت کا حکم لگایا ، جن پر سابقین کی جانب سے کوئی حکم نہ تھا،

▪️ حافظ ذهبی فرماتے ہیں، 

  وھی الأحادیث التی تصلح أن یُحتج بھا سوی مافی الصحیحین   

 کہ احادیث صحیحین کے علاوہ یہ ایسی احادیث ہیں جو قابلِ استدلال ہیں۔

▪️ابن تیمیہ ، بدرالدین زرکشی ، ابن عبدالہادی ، اور حافظ ابن کثیر وغیرہ نے فرمایا کہ ضیاء مقدسی کی تصحیح حاکم کی تصحیح سے زیادہ قوی ہے،

 ▪️زرکشی نے تو یہ بھی صراحت کی ہے کہ ان کی تصحیح حاکم کی تصحیح سے بلند حیثیت رکھتی ہے

▪️ امام ترمذی اور ابن حبان کی تصحیح کے قریب قریب ہے، اسی لیے علماء نےمعدودے چند مختلف فیہ احادیث کے علاوہ    المختارہ   کی احادیث پر اعتماد کیا ہے۔

(دیکھئے  :  منھج دراسة الأسانید للعانی ص ۵۹)

(ب)  وہ احادیث جن پر ائمۂ نقد نے حکم لگادیا ہے 

مذکورۂ بالا کتب کی احادیث کے علاوہ   ایک بھاری تعداد وہ ہے جس کو متعدد ائمۂ حدیث ، اور ناقدین عظام نے اصول روایت کی کسوٹی پر کس کر اس کے کھرے کھوٹے ہونے کا فیصلہ کر دیا ہے، چناں چہ کسی پر صحیح کا حکم لگایا گیا ہے ، تو کسی پر حسن کا ، کسی پردراس کا حکم لگا ہے تو کسی پر منکر کا ، کسی پر انتہائی ضعیف کا حکم لگا ہے، تو کسی پر موضوع ہونے کا۔

(حدیث اور فہم حدیث )

ان کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہیں جن میں احادیث کےبارے میں ائمۂ سابقین کی تصریحات مل سکتی ہیں۔

 ان کتابوں میں کتب سنن، کتب احکام، کتب زوائد، کتب تخاریج، کتب علل وغیرہ نیز کتب سنن میں ائمہ ثلاثہ ابوداؤد، نسائی اور ترمذی کی سنن زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

  چند اہم کتابیں 

  (۱)    سنن أبوداؤد  :  سلیمان بن اشعث ابوداؤد سجستانی (م:۲۷۵)

 اس کتاب کے بارے میں خود امام ابوداؤد سے یہ بات منقول ہے کہ میں اس کتاب میں ان احادیث کو ذکر کروں گا جو صحیح ہیں یا صحیح احادیث کے مشابہ یا صحیح احادیث کے قریب قریب ہیں، جن احادیث میں بہت زیادہ ضعف ہوگا اسے بیان کردوں گا اور جس حدیث کے بارے میں کوئی تذکرہ نہ ہو اسے صالح یعنیقابل استدلال سمجھا جائے البتہ ان میں صحت کے اعتبار سے تفاوت ہے بعض بعض کےمقابلہ میں زیادہ صحیح ہیں۔ اب قابل استدلال ہونے میں دونوں ہی احتمال ہے لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ اس کو حسن قرار دیا جائے۔

ویسے یہ مسئلہ نہایت ہی معرکۃ الآراء ہے کہ جن احادیث پر امام موصوف نے سکوت اختیار کیا ہے ان کی حیثیت کیا ہوگی؟ امام کی اس صراحت کے بعد بھی کتاب میں بہت سی احادیث ضعیفہ اور احادیث موضوعہ کا وجود ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ ماسکت عنہ ابوداؤد احادیث کی نئے سرے سے تحقیق کرلی جائے۔

  (۲)    جامع الترمذی  : محمد بن عیسی بن سورۃ  (م: ۲۷۹)

یہ ہر حدیث کے بعد اس حدیث کا درجہ بیان کردیتے ہیں۔

  (۳)    مسند البزار المعلل  :  بزار  (م: ۲۹۲)

 امام بزار کچھ احادیث کی صحت وعدم صحت پر کلام کردیتے ہیں اکثر راوی کے منفرد ہونے یا متابعت کا ذکر کرتے ہیں۔

  (٤)   المنتقی  :  ابن الجارود  (م:٣٠٦)

  (۵)    دارقطنی کی تمام مؤلفات خاص طور پر سنن دارقطنی اور العلل الکبری  (م: ۳۸۵)

  (٦)    معالم السنن  :  خطابی  (متوفی  ۳۸۸)

 یہ کتاب سنن ابوداؤد کی شرح ہے۔

  (۷)    المحلی  :  ابن حزم اندلسی  (م: ٤٥٦)

  (۸)    السنن الکبری  :  بیہقی  (م: ٤۵۸)

  (۹)    معرفة السنن والآثار (متوفی ٤۵۸)

  (۱۰)    ابن عبدالبر کی تمام مؤلفات خاص طور پر الإستذکار اور التمہید  (م:٤٦٣)

  (۱۱)    شرح السنة للبغوي(م: ٥١٦)

  (۱۲)    ابن العربی مالکی کی تمام مؤلفات خاص طورپر عارضۃ الأحوذی شرح سنن ترمذی  (م: ۵٤۳)

  (۱۳)    قاضی عیاض کی تمام مؤلفات خاص طور پر الشفا بحقوق المصطفا  (م:۵٤٤)

  (١٤)    الأحکام الکبری  :  عبدالحق اشبیلی  (م: ۵۸۱)

  (۱۵)    ابن الجوزی کی تمام مؤلفات خاص طور پر التحقیق فی تخریج التعالیق اورالموضوعات الکبری اور العلل المتناھیة

  (١٦)   الترغیب والترھیب  :  حافظ منذری  (م:٦٥٦)

  (۱۷)   امام نووی کی مؤلفات خاص طور پر شرح مسلم، ریاض الصالحین، الأذکار النوویه، أربعین نووی اور المجموع شرح المہذب

  (۱۸)    شرح البخاری  :  کرمانی  (م: ٦٧٦)

  (۱۹)    ابن دقیق العید :  (م:  ۷۰۲)  کی تمام مؤلفات خاص طور پر الإمام فی أحادیث الأحکام اور الإمام بأحادیث الأحکام

  (۲۰)    المتجر الرابح فی ثواب العمل الصالح  :  ابو محمد عبدالمؤمن بن خلف دمیاطی  (م :۷۰۵)

  (۲۱)    مشکوۃ المصابیح  :  خطیب تبریزی  (م:  ۷۳۷  یا  ۷٤۳)

  (۲۲)    تنقیح التحقیق  :  ابن عبدالہادی  (م: ٧٤٤)

  (۲۳)    امام ذهبی (۷٤۷) کی تمام مؤلفات خاص طور پر میزان الإعتدال

  (٢٤)    الجوہر النقی فی الرد علی البیہقی   :  ابن الترکمانی  (م :  ۷۵۰)

یہ کتاب سنن کبری کے حاشیہ پر مطبوع ہے۔

  (۲۵)    ابن قیم جوزیہ  (م  : ۷۵۱)  کی تمام مؤلفات خاص طور پر المنار المنیف، زاد المعاد، تہذیب سنن أبی داؤد

  (۲٦)    امام زیلعی کی تخریج کردہ کتابیں (م : ۷٦۲) خاص طور پر نصب الرایه لتخریج أحادیث الہدایة

  (۲۷)    ابن رجب حنبلی (م :  ۷۹۵)  کی تمام مؤلفات خاص طور پر جامع العلوم والحکم  شرح الأربعین النوویة اور شرح علل الترمذی

  (۲۸)    امام عراقی (م:٨٠٦)  کی تمام مؤلفات خاص طور پر المغنی عن حمل الأسفار فی الأسفار فی تخریج مافی الإحیاء من الأخبار

  (۲۹)    امام هیثمی (م :  ۸۰۷)  کی  مؤلفات خاص طور پر مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (مگر یہ تصحیح میں متساہل ہیں)

  (۳۰)    شرح مسلم  :  ابی  (م:  ۸۲۷)

  (۳۱)    امام بوصیری کی تمام مؤلفات (م:  ۸٤۰)  خاص طور پر مصباح الزجاجة فی زوائد ابن ماجة

  (۳۲)    ابن حجر کی تمام مؤلفات (م:  ۸۵۲)خاص طور پر فتح الباری ، التلخیص الحبیر، الدرایة فی تخریج احادیث الهدایة اور بلوغ المرام وغیرہ

  (۳۳)    بدرالدین عینی  ـ(م:  ۸۵۵) کی تمام مؤلفات خاص طور پر عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری

  (٣٤)    فتح القدیر شرح هدایة  :  ابن همام (م:  ۸٦۱)

  (۳۵)    امام سیوطی (م:  ۹۱۱) کی اکثر مؤلفات خاص طورپر جمع الجوامع، الجامع الصغیر ، اللآئی المصنوعة فی الأحادیث الموضوعة وغیرہ

  (۳٦)    إرشاد الساری شرح صحیح البخاری :  قسطلانی (م: ۹۲۳)

  (۳۷)    ملا علی قاري

(م :١٠١٤) کی تمام مؤلفات خاص طور پر مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح

  (۳۸)    علامہ مناوی کی تمام مؤلفات  (م:  ۱۰۳۱) خاص طور پر فیض القدیر شرح الجامع الصغیر

  (۳۹)    دلیل الفالحین شرح  ریاض الصالحین :  ابن علان  (م:  ۱۰۵۷)

  (٤۰)    الفتوحات الربانیة فی شرح الأذکار النوویة  : ابن علان  (م:  ۱۰۵۷)

  (٤۱)    مرتضی زبیدی (م: ۱۲۰۵) کی تمام مؤلفات خاص طور پر شرح إحیاء علوم الدین للغزالی

  (٤۲)    امام شوکانی کی تمام مؤلفات  (م:  ۱۲۵۰)  خاص طور پر نیل الأوطار شرح المنتقی لابن تیمیة

  (٤۳)    عون المعبود  :  ابوالطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی  (م:  ۱۳۲۹)

  (٤٤)    بذل المجہود شرح سنن أبی داؤد  :  شیخ خلیل احمد سہارنپوری (م:  ١٣٤٦)

  (٤۵)    المنہل العذب المورود  :  محمود خطاب سبکی (م:  ۱۳۵۲)  ابوداؤد کی شرح ہے۔

  (٤٦)    تحفة الاحوذی شرح سنن الترمذی  :  شیخ مبارکپوری  (م:  ۱۳۵۳)

  (٤۷)    مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح  :  شیخ عبیداللہ مبارکپوری

  (٤۸)    منھل الواردین شرح ریاض الصالحین  :  دکتور صبحی صالح 

  (٤۹)    نزھة المتقین شرح ریاض الصالحین  :  دکتور مصطفی 

  (۵۰)    احمدمحمد شاکر کی مؤلفات وتحقیقات  :  جیسے مسند احمد کی تحقیق، تفسیر ابن جریر طبری کی تحقیق اور تفسیر ابن کثیر کی تحقیق

  (۵۱)    حدیث کی وہ تمام کتابیں جن کی تحقیق کی گئی ہیں اس لیے کہ محققین احادیث پر حکم لگانے کا اہتمام کرتےہیں۔

  (۵۲)    تخریج کی وہ کتابیں جن میں مؤلفین نے کسی حدیث کی کتاب کی احادیث کی تخریج کی ہو۔

  (۵۳)    زبان زد (مشہور علی الألسنة) احادیث سے متعلق کتابیں ۔

  (٥٤)    فقہ اور احکام سےمتعلق وہ کتابیں۔

  (۵۵)    احادیث متواترہ سے متعلق کتابیں۔

  (٥٦)    احادیث قدسیہ سے متعلق کتابیں۔

  (۵۷)    احادیث ضعیفہ اور احادیث موضوعہ سے متعلق کتابیں ۔

  (۵۸)    احادیث مرسلہ سے متعلق کتابیں۔

  (۵۹)    علل حدیث سے متعلق کتابیں۔

   (تخریج الحدیث نشأته ومنھجیته)   

ان مذکورہ بالا کتابوں میں متعدد ائمۂ حدیث اور ناقدین عظام نے اصول روایت کی کسوٹی پر کس کر احادیث کے کھرے کھوٹے ہونے کا فیصلہ کردیا ہے، اس لیے باحث کو چاہیے کہ وہ حدیث پر حکم لگانے سے پہلے ان کتابوں کی طرف بھی رجوع کرے۔

نقد احادیث میں   حافظ ابن حجرؒ   کا مقام امتیازی ہے،اگر کہا جائے کہ علوم حدیث کی پوری لائبریری کے ورق ورق پر آپ کی نظر ہے تو غلط نہ ہوگا، حافظ صاحب اپنی کتب تخاریج اور شروح حدیث کے علاوہ کتب رجال میں بھی جگہ جگہ احادیث کےدرجات اور ان کی علل کی وضاحت فرماتے ہیں، اس لیے باحث کو ان کی شخصیت کا دامن مضبوطی سے تھامے رہنا چاہیے.

خوش خبری کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی تمام احادیث پر جن پر حافظ صاحب نے کوئی حکم لگایا ہے یا کلام کیا ہے ان کا مجموعہ طبع ہوکر منظر عام پر آگیا ہے جس کا نام   ”موسوعة الحافظ ابن حجر الحدیثیة“   ہے .

یہ موسوعہ باحثین کے لیے نعمت مترقبہ سے کم نہیں ہے، اس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔

بہر حال محفوظ ترین طریقہ یہی ہےکہ باحث اپنی طرف سے احادیث پر حکم لگانے کی کوشش نہ کرے جہاں تک ہوسکے ائمۂ ٔسابقین کی تصریحات تلاش کرے تاکہ اپنی ذمہ داری کے بوجھ سے سبک دوش رہے.

 چناں چہ اگر مطلوبہ حدیث سے متعلق کسی ایسے امام کی تصریح مل جائے جس پر جمہور علماء اعتماد کرتے آئے ہوں اور اکثریت نے اس کو تساہل وغیرہ کی طرف منسوب نہ کیا ہو تو اس پر اکتفاء کرے، نئے سرے سے نقداسناد کا جال پھیلانا اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

ہاں! اگر کسی ایسے ناقد کی تصریح ہو جو علمی حلقوں میں ناقابل اعتماد یا سہل انگاری میں مشہور ہو اور اس کی موافقت دیگر حضرات ناقدین نے نہ کی ہو تو باحث کو چاہیے کہ معتمد ومشہور ناقدین کے طرز عمل کے مطابق اگر اس کا فیصلہ صحیح ہو تو اس کی موافقت کرے ورنہ مسلمہ اصولوں کا جو تقاضا ہو اسی کے مطابق اس پر حکم لگادے۔

الغرض نقد اسناد کی ضرورت ان ہی احادیث میں ہوتی ہے جن میں پیشرو ائمۂ فن کی جانب سے یا تو بالکل ہی تصریح نہ ملے، یا ایسے ناقد کی تصریح ملے جو جمہور اہل علم کے نزدیک ناقابل اعتبار یا بےجا  نرمی برتنے میں مشہور ہو یا ان احادیث میں ہوتی ہے جن میں تصریح تو کسی امام معتبر کی موجود ہو مگر اس میں واضح کوئی ایسی علت موجود ہو جو اس کی تصحیح یا تحسین سے مانع ہو اور باوثوق طریقہ سے یہ معلوم ہوجائے کہ حدیث پرحکم لگانے والےامام کو اس علت کا ہرگز علم نہیں تھا۔

(حدیث اور فہم حدیث  ٢٩٦،۲۹۵)

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے