رواۃ کی عدل وضبط کے اعتبار سے تحقیق
پہلے یہ ذکر کیا گیا کہ رواۃ کی عدل وضبط کے اعتبار سے تحقیق کے لئے چار امور سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ان میں پہلے تین امور (کتب اسمائے رجال،الفاظ جرح و تعدیل, ان کی مراد اور مراتب جرح و تعدیل ) مکمل ہوئے ۔ اب چوتھا امر قواعد جرح و تعدیل کو ذکر کیا جاتا ہے
قاعدہ نمبر (۱)
جرح وتعدیل میں اسباب کا ذکر کرنا
جب کوئی شخص کسی راوی پر جرح کرے یا کسی کی تعدیل کرے اور اسباب جرح یا اسباب تعدیل ذکر کردےتو تمام علماء کے نزدیک یہ جرح مفسر وتعدیل مفسر قابل قبول ہوتی ہے
لیکن اگر جرح وتعدیل بلاسبب بیان کرے ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔
(١) پہلا قول یہ ہےکہ تعدیل مبہم مقبول ہے لیکن جرح مبہم مقبول نہیں، اس لیے کہ عدالت کے اسباب بے شمار ہیں جن کا ذکر کرنا مشکل ہے، اس کے مقابلہ میں جرح کے اسباب کم ہوتے ہیں جن کا بیان کرنا آسان ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسباب جرح کے سمجھنے میں غلطی ہوسکتی ہے، بہت سے حضرات ایسی چیزوں کو جرح سمجھ لیتے ہیں جو حقیقت میں قابل جرح نہیں ہوتی.
(۲) دوسرا قول یہ ہےکہ عدالت کے اسباب بیان کرنا ضروری ہے ، جرح کے اسباب بیان کرنا ضروری نہیں ہے کیوں کہ عدالت کا حکم لگانے میں آدمی کو ظاہری شکل وصورت دیکھ کر دھوکہ ہوسکتا ہے.
(٣) تیسرا قول یہ ہے کہ دونوں (جرح وتعدیل) میں اسباب کا بیان کرنا ضروری ہوگا، اس لیے کہ جس طرح اسباب جرح میں غلطی کا امکان ہے، اسی طرح اسباب تعدیل میں بھی غلطی کا امکان ہوتا ہے کیوں کہ بسا اوقات لوگ ظاہری شکل وصورت دیکھ کر ثقاہت کا حکم لگادیتے ہیں، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، اسی طرح کبھی ایسے اسباب کی وجہ سے جرح کردیتے ہیں جو حقیقت میں اسباب جرح نہیں ہوتے ہیں۔
(ضوابط الجرح والتعدیل:٣٦ ، تدریب الراوی: ١/٢٦٠)
پہلے قول کو اکثر علماء نے راجح اور قابل قبول قراردیا ہے، لیکن اگر یہ کہاجائے کہ یہ قول متقدمین کے حق میں بہتر تھا، متأخرین کے حق میں بہتر نہیں تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ متأخرین کا اعتماد اس فن میں تصنیف شدہ کتابوں پر ہے ،لہذا ان کے حق میں یہ بہتر ہوگا کہ جرح وتعدیل کسی امام فن، عالم باسباب الجرح والتعديل کی طرف سے صادر ہو تو بغیر اسباب ذکر کئے قابل قبول ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جرح وتعدیل پر تصنیف شدہ کتابیں( جس میں بے شمار اقوال جرح وتعدیل موجود ہیں) ان میں اکثر اسباب ذکر نہیں گئے ہیں۔
قاعدہ نمبر:٢
جرح وتعدیل میں تعارض
جب کسی راوی کے بارے میں جرح وتعدیل میں تعارض ہوجائے تو اس کی دوصورتیں ہیں۔
(۱) جرح وتعدیل دونوں ایک ہی امام کی طرف سے صادر ہو
(۲) جرح وتعدیل دو یا چند ائمہ کی طرف سے صادر ہو۔
اگر جرح وتعدیل ایک ہی امام کی طرف سے کسی راوی کے بارے میں صادر ہو تو اس کی دوقسمیں ہیں۔
(۱) راوی کے بارے میں اس امام کا اجتہاد تبدیل ہوگیا ہوگا، ایسی صورت میں آخری قول کو قول فیصل سمجھنا چاہیے ۔ بشرطیکہ معلوم ہوجائے کہ اجتہاد بدل گیا تھا اور آخری قولیہ ہے۔
(۲) اجتہاد بدلا نہ ہو تو مندرجۂ ذیل طریقہ پر عمل کیا جائے۔
▪️حتی الامکان دونوں اقوال کو جمع کرنے کی کوشش کی جائے۔
▪️اگر دونوں اقوال کے درمیان جمع ممکن نہ ہو تو قرائن کے ذریعہ کسی ایک کو ترجیح دی جائے۔
▪️ قرائن کے پائے جانے کی صورت میں ترجیح اس طرح دی جائے کہ دونوں اقوال میں سے جو قول دیگر اہل نقد کے قول قریب ہو اسے اختیار کرلیا جائے۔
▪️اگر کسی طرح ترجیح ممکن نہ ہو تو پھر جب تک کوئی مرجح ظاہر نہ ہو تب تک توقف کیا جائے۔یا بقول بعض تعدیل کو ترجیح دے دی جائے۔
اگر تعارض مختلف ائمہ کے اقوال کے درمیان یا دو اماموں کے اقوال کے درمیان ہو جیسے محمد بن اسحاق مدنی صاحب مغازی کو امام شعبہ نے أمیر المؤمنین فی الحدیث کہا ہے اور انہیں کو امام مالکؒ نے دجال من الدجاجلة کہا ہے۔
(میزان الاعتدال ٦/٥٧)
یہاں تعدیل کا اعلی مرتبہ (امیر المؤمنین فی الحدیث) اور جرح کا بدترین مرتبہ (دجال من الدجاجلة) ایک دوسرے سے متعارض ہے۔
جب اس طرح جرح وتعدیل کے درمیان تعارض ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ حقیقت میں تعارض اس وقت ہوگا جب اقوال کے درمیان تطبیق ناممکن ہو، اس لیے کہ بہت سے حالات ایسے ہوتے ہیں جس میں راوی ضعیف ہوتا ہے اور اگر وہ حالات نہ ہوں تووہ ثقہ ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک راوی ایسا ہے جو ابتدائی زمانہ میں ثقہ تھا لیکن آخری ایام میں مختلط ہوگیا، پہلی حالت کو جس نے پایا اس نے ثقہ قرار دیا اور جس نے آخری حالت کو پایا اس نے اسے ضعیف قراردیا،
اگر اس طرح کی بات ہو تو اسے تعارض نہیں کہا جائے گا بلکہ حالات کا اعتبار کرتے ہوئے فیصلہ کردیا جائے گا۔
مثلاً عبداللہ بن لہیعہ جو سنن اربعہ کے راویوں میں سے ہیں اور بہت مشہور ہیں، ابتدائی ایام میں یہ ثقہ تھے لیکن جب ان کے کتب خانے میں آگ لگ گئی اور ساری کتابیں جل گئیں اس کےبعد یہ مختلط ہوگئے۔ لہذا ان کی روایتیں جو اختلاط سے پہلے کی ہیں وہ صحیح ہیں اور جو بعد کی ہیں وہ ضعیف ہیں، ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ جب عبادلہ اربعہ ان سے روایت کریں تو ان کی روایت صحیح ہوتی ہے۔
عبادلہ اربعہ یہ ہیں۔
(۱) عبداللہ بن مبارک
(۲) عبداللہ بن یزید مقری
(۳) عبداللہ بن وھب
(٤) عبداللہ بن مسلمہ قعنبی
(میزان الاعتدال ٤/۱۷۳)
جن لوگوں کو ابن لہیعہ کے بارے میں پہلے حالات کا علم تھا ،انہوں نے ان کو ثقہ کہا اور جن لوگوں کو آخری حالات کا علم تھا انہوں نے ان کو ضعیف کہا، اس طرح دونوں اقوال کے درمیان کوئی تعارض نہ رہا۔
اسی طرح بہت سے راوی ایسے ہیں جو خاص جگہ میں ثقہ مانے جاتے ہیں اور دوسری جگہوں میں ضعیف مانے جاتے ہیں،
مثلا ً: اسماعیل بن عیاش شامی جب یہ اپنے ملک یعنی شامیوں سے روایت کرتے ہیں تو ثقہ اور غیر شامیوں سے روایت کرتےہیں تو ضعیف ہوتے ہیں۔
(میزان الاعتدال ۱/٦۰۱)
اسی طرح سے بہت سے راوی ایسے ہیں جو خاص استاذ میں ضعیف اور دوسرے اساتذہ سے روایت کرے تو ثقہ مانے جاتےہیں
مثلاً : هشیم بن بشیر جو صحیحین کے راویوں میں سے ہیں اور ثقہ ہیں، لیکن جب امام زهری سے روایت کرتے ہیں تو ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
(میزان الاعتدال ۷/۹۰)
جس نے ان کو ضعیف قرار دیا انہوں نے صرف امام زہری کی روایتوں کو ضعیف کہا ہے لہذا کوئی تعارض نہیں ہے۔
اسی طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام مالکؒ نے محمد بن اسحاق کے بارےمیں جو کچھ کہا تھا وہ غصہ کی وجہ سے کہا تھا، ان پر اس طرح کا حکم لگانا مقصد نہیں تھا۔ اب امام مالکؒ کا محمد بن اسحاق کے بارے میں یہ قول معتبر نہ ہوگا۔
اس طرح سے تطبیق کی بہت ساری شکلیں نکل سکتی ہیں جن کو راویوں کے حالات سے شغف رکھنے والے اور ماہر تجربہ کار لوگ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
تعارض کی صورت میں عمل کی نوعیت
لیکن اگر تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟اس سلسلہ میں علماءکے کئی اقوال ہیں اور علماء کے رواۃ کے بارے میں دوبنیادی نظرئیے ہیں۔
▪️ایک نظریہ راویوں پر حسن ظن کا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ راویوں میں اصل ثقاہت ہے اور ضعف عارضی چیز ہے،
▪️ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اصل مقصد حفاظت حدیث ہے جرح اصل ہے ،اب جن کے نزدیک جرح اصل ہے وہ جرح کو مقدم کرتےہیں اور جن کے نزدیک تعدیل اصل ہے وہ تعدیل کو مقدم کرتےہیں۔
اقوال کی تفصیل اس طرح ہے۔
(۱) پہلا قول یہ ہے کہ جرح مقدم ہے، اس لیے کہ تعدیل کرنے والا شخص ظاہری حالت کی بنیاد پر خبر دیتا ہے اور جارح کسی باطن اور مخفی چیز کیبنیاد پر خبر دیتا ہے جو تعدیل کرنے والے کو معلوم نہیں، معلوم ہوا کہ جارح کے پاس زیادتی ٔعلم ہے جس کا قبول کرنا لازم ہوگا.
نیز ایسی صورت میں اگر جارح کے قول پر عمل کیاجاتا ہے تومعدل پر کوئی حرف نہیں آتا لیکن اگر تعدیل پر عمل کیا جاتا ہے تو اس سے جارح کی تکذیب لازم آتی ہے۔
البتہ اگر جارح کوئی ایسا سبب بیان کرتا ہے جو معدل کے علم میں ہے لیکن معدل اس کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس سببِ جرح کو جانتا ہوں لیکن اس راوی نے توبہ کرلی ہےاور اس کا حال درست ہوگیا ہے تو ایسی صورت میں تعدیل مقدم ہوگی۔ (تدریب الراوی ۱/۲٦۲)
(۲) دوسرا قول یہ ہے کہ تعدیل مقدم ہے، اس لیے کہ رواۃ میں اصل عدالت ہے ،جرح امر عارضی ہے۔ لہذا مجرد جارح کے کلام سے عادل کی عدالت ساقط نہیں کی جاسکتی.
(٣) تیسرا قول یہ ہے کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ جرح مبہم ہے یا مفسر
اگر جرح مبہم ہو (تعدیل مبہم ہو یا مفسر) تو تعدیل راجح ہوگی اور اگر جرح مفسر ہو (تعدیل مفسر ہو یا مبہم) تو جرح راجح ہوگی.
(خلاصہ یہ ہے کہ جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوگی) اس کی مندرجۂ ذیل صورتیں ہوں گی۔
▪️جرح + تعدیل مبہم = تعدیل راجح
▪️جرح مفسر + تعدیل مفسر = جرح راجح
▪️جرح مبہم + تعدیل مفسر = تعدیل راجح
▪️جرح مفسر + تعدیل مبہم =جرح راجح
اس قول کو جمہورنے راجح قرار دیا ہے.(جرح وتعديل)
قاعدہ نمبر: (۳)
ائمۂ جرح و تعدیل کے مزاج مختلف تھے۔
بعض ائمہ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات ارشاد نہیں فرمائی ہے وہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جائے اس لئے وہ رواۃ کی چھان بین میں سختی سے کام لیتے تھے ۔
بعض ائمہ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمائی ہے کہیں سختی کی وجہ سے اس کا رشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقطع نہ ہو جائے اس لئے وہ رواۃ کے بارے میں نرم پہلو اختیار کئے ہوئے تھے
بعض ائمہ کے مزاج میں اعتدال تھا وہ دونوں پہلوؤں کی رعایت کرتے تھے کہ کہیں غیرثابت کو ثابت نہ مان لیا جائے اور ثابت کو غیر ثابت نہ مان لیا جائے اس لئے وہ دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر راوی کے متعلق کلام کرتے تھے ۔
اس طرح علمائے جرح وتعدیل تین طبقات میں منقسم ہوئے ۔
(۱) متشددین
وہ ائمۂ جرح وتعدیل جو جرح کرنے میں متشدد واقع ہوئے ، یہ حضرات راوی کی ایک دو غلطیوں کی بھی پکڑ کرتے تھے اور ان پر جرح کرتے ہوئے ان کی حدیث کو ناقابل اعتبار قرار دیتے تھے اور راوی کی تعدیل میں احتیاط سے کام لیتے تھے.
یہ ائمۂ جرح وتعدیل مندرجۂ ذیل ہیں۔
(۱) شعبۃ بن الحجاج (۲) یحیی بن سعیدالقطان (۳) یحیی بن معین (٤) ابو حاتم رازی (۵) ابن ابی حاتم (٦) نسائی احمد بن شعیب (۷) علی بن المدینی (۸) جوزجانی اہل کوفہ پر جرح کرنے میں (۹) ابن خراش بغدادی صرف اہل شام پر جرح کرنے میں متشدد ہیں
(۲) معتدلین
وہ ائمۂ جرح وتعدیل جو کسی راوی کی توثیق کرنے میں معتدل مزاج واقع ہوئے ہیں اور کسی راوی پر جرح کرنے میں منصف واقع ہوئے ہیں۔
ان کے اسماء حسب ذیل ہیں۔
(۱) سفیان ثوریؒ (۲) عبدالرحمن بن مہدی (۳) احمد بن حنبل (۴) امام بخاری (۵) ابوزرعہ رازی (۶) ابن عدی (۷) دار قطنی (۸) ذہبی (۹) ابن حجر
(۳) متساہلین
وہ علمائے جرح وتعدیل جو جرح وتعدیل میں متساہل واقع ہوئے ہیں،
ان کے اسماء حسب ذیل ہیں۔
(۱) عجلی (۲) ترمذی (۳) ابن حبان (٤) حاکم (۵) بزار (٦) طبرانی (۷) دار قطنی (بعض اوقات ) (۸) ابوعبداللہ حاکم (۹) بیہقی (۱۰) ہیثمی (۱۱) منذری (۱۲) طحاوی (۱۳) ابن خزیمہ (١٤) ابن السکن (۱۵) بغوی
(تخریج الحدیث:۲۲۰)
جب علمائے متشددین میں سے کوئی کسی راوی کی توثیق وتعدیل کردے تو اس کی بات بلاتوقف قبول کرلی جائے گی، اس لیے کہ علمائے متشددین کسی راوی کی توثیق میں تثبت اور بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے،
▪️ہاں اگر وہ کسی ایسے راوی کی توثیق وتعدیل کردے جس کے ضعیف ہونے پر دیگر علمائے جرح وتعدیل نے اتفاق واجماع کیا ہو تو پھر اس کی توثیق قابل اعتبار نہ ہوگی۔
▪️اگر علمائے متشددین میں سے کوئی کسی راوی پر جرح کرے تو اس کی جرح اسی وقت مقبول ہوگی جب کہ دیگر علمائے جرح وتعدیل میں سے کسی نے اس کی موافقت کی ہو
اگر کسی ایک نے بھی موافقت نہ کی ہوتو پھر اس کی بات علی الاطلاق قبول نہیں کی جائے گی اور نہ علی الاطلاق رد کی جائے گی .
بلکہ اگر کسی معتبر عالم کی توثیق سے اس کی جرح متعارض ہوجائےتو پھر اس متشدد عالم کی جرح اسی وقت مقبول ہوگی جب کہ وہ مفسر ہو یعنی جرح کے اسباب بیان کردیئے ہوں۔
جب علمائے متساہلین میں سے کوئی کسی راویکی توثیق وتعدیل کرے تو اگر دیگر علمائے جرح وتعدیل میں سے کوئی اس کی موافقت کرے تو ہی اس کی توثیق وتعدیل کا اعتبارکیا جائے گا.
▪️ اگر توثیق میں وہ (متساہل) منفرد ہے تو پھر اس کی توثیق کو تسلیم نہیں کیا جائے گا
▪️اسی طرح ان علمائے متساہلین کی جرح بھی اس وقت معتبر ہوگی جب کہ کوئی ان کی موافقت کردے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ
متساہلین کا طریقۂ کار جرح کے سلسلہ میں متحد نہیں ہے، بلکہ بعض ضعفاء کے ساتھ تساہل کا معاملہ کرتے ہیں
اور بعض ضعفاء کے ساتھ تشدد کا معاملہ کرتے ہیں
جب علمائے معتدلین کسی کی توثیق وتجریح کریں تو ان کی بات کا اعتبار کرلیا جائے جب تک کہ ان کی توثیق جرح مفسر کے معارض نہ ہو ۔
اگر ان کی توثیق کے معارض جرح مفسر ہوجائے تو پھر جرح مفسر کو مقدم کیا جائے گا۔
(تخریج الحدیث :۲۲۰، ضوابط الجرح والتعدیل: ٦٤,٦٥)
قاعدہ نمبر(٤)
اگر جارح اور مجروح کےدرمیان مشرب اور عقائد کا اختلاف ہو اور جرح کا باعث وہی اختلاف مشرب ہو تو پھر جرح کو قبول کرنے میں توقف کیا جائے گا۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ماہر شخص حافظ ابواسحاق جوزجانی کی اہل کوفہ کے متعلق جرح سنے گا تو تعجب کرے گا، اس جرح کی وجہ یہ تھی کہ ابواسحاق متشدد ناصبی تھے اور اہل کوفہ شیعہ تھے، اس وجہ سے ابو اسحاق اہل کوفہ کے بارے میں بڑی سخت زبان میں جرح کرتے تھے، یہاں تک کہ ابواسحاق نے اعمش، ابونعیم، عبیداللہ بن موسیٰ اور دیگر اساطین علم حدیث کی بھی تلیین کی تھی۔
قاعدہ نمبر (۵)
ہر وہ شخص جس کی ثقاہت وعدالت یا ضعف کے بارے میں ائمہ کا اتفاق ہو مگر ایک شخص ان کی مخالفت کرتا ہے اور ان کےبرخلاف حکم لگاتا ہے تو اس کا حکم شاذ ہوگا اور اس کااعتبار نہیں کیا جائے گا، الا یہ کہ اس کے پاس کوئی ایسی واضح دلیل قاطع ہو جس کا اعتماد انہیں چیزوں پر ہو جس پر اعتماد شاہد اپنی شہادت میں کرتا ہے۔
(قاعدۃ فی الجرح والتعدیل:۲۲)
یہی وجہ ہے کہ ابن ابي ذئب کی طرف سے امام مالک پر کی گئی جرح کو قبول نہیں کیا گیا، اسی طرح یحیی بن معین کی امام شافعی کے بارے میں اور امام نسائی کی احمد بن صالح مصری کے بارے میں کی گئی جرح کو محدثین نے قبول نہیں کیا ہے، اس لیے کہ امام مالک، امام شافعی اور احمد بن صالح مشہور اہل علم میں سےہیں،جارح کی خبر ان کے بارے میں خبر غریب کی حیثیت رکھتی ہے اگر یہ خبر صحیح ہوتی تو بکثرت لوگ اسے نقل کرنے والے ہوتے۔
(قاعدۃ فی الجرح والتعدیل ص :۳۰)
قاعدہ نمبر (٦)
اگر جرح کی نسبت قائل کی طرف صحیح نہ ہو تو اس جرح کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائےگا۔
ابن الجوزی نے ابان بن یزید عطار کے بارے میں کدیمی( محمد بن یونس بن موسی )عن ابن المدینی کی سند سے سعید بن القطان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ سعید فرماتے ہیں کہ میں ابان بن یزید عطار سے روایت نہیں کرتا ہوں۔
حافظ ابن حجر اس پر فرماتے ہیں کہ ابان بن یزید کے بارے میں یہ جرح معتبر نہیں ہے، اس لیے کہ اس قول کی قائل کی طرف نسبت صحیح سند سے منقول نہیں ہے، اس لیے کہ کدیمی ضعیف راوی ہے، بلکہ ابن معین کے واسطے سے ابن قطان کا جو قول ابان بن یزید کے بارے میں منقول ہے وہ معتبر ہے ابن قطان کا قول کان یروی عنه ہے ، عنه ای ابان بن یزید
(ھدی الساری ص ۵٦۷ ، تہذیب التہذیب ۱/۵۷ضوابط الجرح والتعدیل ص :٤٩)
قاعدہ نمبر (۷)
اس جرح کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی جو جرح کسی مجروح سے صادر ہو ،ہاں اگر جارح اس فن کا امام ہو اور راوی کسی کی توثیق سےخالی ہو اور کوئی ایسا قرینہ موجود نہ ہو جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ جارح مجروح پر زیادتی کررہا ہے تو پھر اس مجروح (درحقیقت اب وہ جارح ہوگا) کا قول قبول کرلیا جائے گا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری کے مقدمہ ”ھدی الساری“ کی نویں فصل میں صحیحین کے رجال کے بارے میں کی گئی جرح کا جواب دیتے ہوئے بارہا لکھا ہے کہ جرح کرنے والاخود مجروح ہے اس لیے اس کی جرح قابل قبول نہیں ہے
مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ : ولا عبرۃ بقول الأزدی لأنه ھو ضعیف فکیف یعتمد فی تضعیف الثقات
(ھدی الساری ص:٥٤٤، ۵٤۵ ، ضوابط الجرح والتعدیل ص: ۵۰)
قاعدہ نمبر (۸)
اگر کسی راوی کے بارے میں ائمۂ متقدمین میں سے کسی امام نے توثیق کی ہو اور ائمۂ متأخرین میں سے کوئی اس کی مخالفت کرے تو ایسی صورت میں امام متأخر کی بات کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جائے گا جب تک اس کی بات کی اصل اور قابل اعتبار وجہ کا علم نہ ہوجائے ۔ اس لیے کہ امام متقدم نے اس راوی کو بذات خود دیکھا اور اس سے معلومات حاصل کی ہے جوں جوں زمانہ گذرتا جاتا ہے غلطی کا امکان بڑھتا جاتا ہے۔
جیسے ابان بن صالح قرشی کی ابن معین، عجلی، ابن ابی شیبہ ، ابوزرعہ، ابوحاتم رازی اورنسائی نے توثیق کی ہے لیکن ابن عبدالبر نے ابان کو ضعیف کہاہے اور ابن حزم نے کہا کہ ابان مشہور نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ابن عبدالبر اور ابن حزم کی یہ بہت بڑی غفلت ہے، اس لیے کہ ابان کو ان دونوں سے پہلے کسی نے ضعیف نہیں کہا ہے، ابان کے بارے میں ابن معین اور ان جیسے ائمۂ متقدمین کا قول کافی ہے۔
(ضوابط الجرح والتعدیل ص:۵۱)
قاعدہ نمبر (۹)
کبھی جرح نسخہ میں غلطی واقع ہونے سے بھی ہوجاتی ہے ،اس لیے اسے بھی دیکھ لینا چاہیےکہ کہیں نسخہ میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔
جیسے امام بخاری نے بشر بن شعیب بن ابی حمزہ حمصی کے بارے میں التاریخ الکبیر میں لکھا کہ ترکناہ حیا سنة اثنتی عشرۃ ومائتین کہ بشر بن شعیب ۲۱۲ھ تک زندہ تھے،
اب ابن حبان کے پاس التاریخ الکبیر کا جو نسخہ تھا اس میں درمیان میں لفظ حیا ساقط ہوگیا تھا جس کی وجہ سے عبارت اس طرح ہوگئی ترکناہ سنة اثنتی عشرۃ سنة اس سقط کی وجہ سے ابن حبان نے سمجھ لیا کہ امام بخاری نے بشر کو متروک قرار دیا ہے، اس لیے ابن حبان نے بشر کو ضعفاء میں شمار کرلیا
اس بات کی وضاحت امام ذہبی نے بشر کے بارے میں اپنے اس قول کے ذریعہ کی ہے بشر صدوق ، أخطأ ابن حبان فی ذکرہ فی الضعفاء
اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی ہدی الساری میں اس پر تنبیہ کی ہے۔
(ضوابط الجرح والتعدیل ص: ۵۲)
قاعدہ نمبر (۱۰)
جس راوی کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتا ہے تو وہ اگر کسی وصف کے ساتھ کسی راوی سے روایت کرے تو وہ راوی ثقہ ہی سمجھا جائے گا جیسے امام مالک، شعبہ، یحی بن سعید القطان، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمد ، بقی بن مخلد ،حریز بن عثمان، سلیمان بن حرب ،شعبی وغیرہ
لیکن یہ قاعدہ ،کلی نہیں ہے بلکہ اغلبی ہے، اس لیے ان لوگوں کا ضعفاء سے نقل کرنا بھی ثابت ہے جیسے شعبہ نے جابر جعفی ، ابراہیم الھجری، محمد بن عبیداللہ عزرمی وغیرہ سے روایت کی ہے، حالاں کہ یہ سب ضعفاء میں سے ہیں،
اسی طرح امام مالک نے عبدالکریم بن ابی المخارق سے روایت کی ہے. حالاں کہ عبدالکریم ضعیف ہے۔ (ضوابط الجرح والتعدیل ص: ۵۲)
قاعدہ نمبر (۱۱)
کتب حدیث میں صحیحین کا درجہ سب سے بڑا ہے، ائمہ کا ان کی صحت پر اجماع ہے حتی کہ ان کتابوں کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ تعالٰی کہا گیا ہے۔ ان دوکتابوں میں جن رواۃ کی روایتیں لی گئی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں۔
- (۱) وہ رواۃ جن کی روایتیں اصول میں لی گئی ہیں۔
- (۲) وہ رواۃ جن کی روایتیں متابعات اور شواہد کے طور پر ذکر کی گئی ہیں۔
پہلی قسم کے رواۃ کی دوقسمیں ہیں
(۱) وہ رواۃ جن پر مطلقاً جرح نہیں کی گئی ہے ایسے رواۃ تو ثقات شمار کئے جائیں گے اور ان کی احادیث قوی ہوگی اگر چہ کسی نے ان کی ثقاہت کی صراحت نہ کی ہو، اس لیے کہ شیخین یا شیخین میں سے کسی ایک کا ان کی روایت کردہ روایت کو بحیثیت استدلال پیش کرنے سے ضمناً ان کو ثقاہت حاصل ہوجاتی ہے، اس لیے کہ شیخین نے صحیح روایت کے ذکر کرنے کا التزام کیا ہے اور راوی میں عدالت اور تام الضبط ہونے کی شرط لگائی ہے۔
(۲) صحیحین کے وہ رواۃ جن پر جرح کی گئی ان کی دوقسمیں ہیں۔
(الف) کبھی کلام تشدد کی وجہ سے ہوتا ہے حقیقت میں جمہور نے ان کی توثیق کی ہوتی ہے، ایسے رواۃ کی احادیث قوی شمار کی جائے گی۔
(ب) کبھی ان رواۃ پر کلام کمزوری اور حفظ کی وجہ سے کیا گیا ہے لیکن اس طرح کے کلام کی وجہ سےان کی روایت حسن لذاتہ کے درجہ سے کم نہ ہوگی،
اس بات کی وضاحت حافظ ابن حجرؒ کے قول سے ہوتی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ : مناسب ہےکہ حدیث صحیح کی تعریف میں کچھ اضافہ کردیا جائے ھوالحدیث الذی یتصل إسنادہ بنقل العدل التام الضبط أوالقاصر عنہ إذا اعتضد عن مثله إلی منتھاہ ولا یکون شاذا ولا معللا
حدیث کے صحیح ہونےکے لیے مذکورہ باتوں کا ہونا ضروری ہے
- (۱) سند متصل ہو۔
- (۲) نقل کرنے والا عادل ہوں ۔
- (۳) نقل کرنے والے تام الضبط ہو اور اگر ناقص الضبط ہوں تو انہیں کے مانند رواۃ سے قوت حاصل ہوئی ہوں ۔
- (٤) حدیث شاذ نہ ہو۔
- (۵) حدیث معلل نہ ہو۔
حافظ صاحب نے صحیح کی تعریف میں أوالقاصر عنہ إذا اعتضد عن مثله کا اضافہ کردیا یہ اضافہ اسی وجہ سے کیا گیا کہ صحیحین کے بہت سے رواۃ وہ ہے جب تک ان کی روایت کے ساتھ متابعات وشواہد کو نہ جوڑا جائے تب تک ان کی روایت صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتی۔
(ضوابط الجرح والتعدیل ص ۵۳)
دوسری قسم
صحیحین کے وہ رواۃ جن کی روایتیں شواہد ، متابعات اور تعالیق کےطور پر ذکر کی گئی ہیں۔
یہ ایسے رواۃ ہیں جن کے ضبط وغیرہ کے اعتبار سے درجات متفاوت ہیں، اگر ان رواۃ پر کسی امام کی طرف سے جرح کی گئی ہو تو وہ جرح امامبخاری وامام مسلم کی تعدیل کے متعارض ہوگی اور جب جرح وتعدیل میں تعارض ہوجائے تو جرح اسی وقت قبول کی جائے گی جب کہ وہ مفسر ہو یعنی اس جرح کے ساتھ کوئی ایسا سبب بیان کیا گیاجو حقیقۃً اس راوی کی عدالت میں عیب پیدا کردے۔ اس لیے اسباب جرح کبھی قادح ہوتے ہیں اور کبھی قادح نہیں ہوتے ہیں۔
(ضوابط الجرح والتعدیل ص ۵۳)
لہذا اگر کسی راوی کے بارے میں جرح وتعدیل میں تعارض ہوجائے تو یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ وہ راوی صحیحین کا ہے یا نہیں ہے، اگر صحیحین کا ہو تویہ بھی دیکھ لیا جائے کہ اس کی روایت اصول میں ہے یا متابعات اورشواہد میں ہے پھر مذکورہ قاعدہ کے مطابق اس کے متعلق کوئی فیصلہ کیا جائے
قاعدہ نمبر (۱۲)
الفاظ جرح وتعدیل کے استعمال میں ائمۂ جرح وتعدیل کی مخصوص اصطلاحات کو بھی پیش نظر رکھا جائے
▪️ائمۂ جرح و تعدیل کی مخصوص اصطلاحات کا بیان قسط :٢٣,٢٤,٢٥ میں گذر چکا ہے ۔
قاعدہ نمبر (۱۳)
کبھی لفظ کے ضبط کے اختلاف کی وجہ سے جرح وتعدیل کے اعتبار سے لفظ کی دلالت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
جیسے راوی کے بارے میں جرح کے لیے فلان مود استعمال کیا جاتا ہے. اگر یہ لفظ مخفف ہو تو ھالک کے معنی دیتا ہے، یہ أودی یودی إیداءًا سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی ھالک کے آتے ہیں۔
اگر یہی لفظ مشدد (مُوَدٍّ) پڑھا جائے اس کے معنی حسن ادا(روایت کے ادا کرنے اور سنانے میں بہتر) کے آتے ہیں۔
(ضوابط الجرح والتعدیل: ٥٤)
اس لیے ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کو چانچتے وقت ان کے صحیح تلفظ کے جاننے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
قاعدہ نمبر (١٤)
ائمۂ جرح وتعدیل کی طرف سے کی گئی توثیق اور تضعیف کبھی مقید ہوتی ہے۔ اس طرح کے طرز عمل سے راوی کی علی الاطلاق تضعیف یا توثیق کرنا مقصود نہیں ہوتا ہے،
اس کی چند صورتیں ہیں
(۱) مثلاً ایک شخص ایک شہر یا ایک اقلیم میں ثقہ ہوتا تھا اور وہی راوی دوسرے شہر یا دوسرے اقلیم میں ضعیف ہوتا تھا، وجہ اس کی یہ ہوتی تھی کہ ایک شہر میں اس نے اس طرح احادیث بیان کی کہ اس کے پاس کتاب نہیں تھی تو اس نے اپنی یادداشت کے مطابق احادیث بیان کی جس کی وجہ سے معاملہ خلط ملط ہوگیا اور جب وہی راوی دوسرے شہر یا اقلیم میں گیا تو کتاب ساتھ موجود تھی جس کی وجہ سے اس نے احادیث کو محفوظ طریقہ سے روایت کیا ۔
یا ایسا ہوتا تھا کہ ایک جگہ اس نے کسی شیخ سے احادیث سنی تو وہ اسے محفوظ نہ رکھ سکا اور کسی دوسرے شہر میں جاکر احادیث سنی تو ان احادیث کو اس نے محفوظ کرلیا۔
مثال : معمر بن راشد ازدی کی بصرہ میں بیان کی گئی احادیث میں بہت زیادہ اضطراب ہوتا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ بصرہ میں ان کے پاس اپنی کتابیں موجود نہیں تھیں اور یمن میں روایت کردہ ان کی احادیث جید اور قابل اعتبار ہوتی ہے۔
(٢) ایک راوی کسی شخص سے روایت کرتا ہے تو ثقہ ہوتا ہے لیکن جب وہی راوی کسی دوسرے شیخ سے روایت کرتا ہے تو ضعیف ہوتا ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کہ راوی فی نفسہ ثقہ ہوتا ہے لیکن بعض شیوخ سے روایت کرنے میں غفلت کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے اس شیخ سے روایت کرنے میں ضعیف ہوجاتا ہے، باقی شیوخ سے روایت کرنے میں وہ اپنی حالت پر ثقہ ہوتا ہے۔
مثال : جریربن حازم بصری یہ ثقہ راوی ہیں لیکن جب قتادہ سے روایت کرتے ہیں تو ضعیف ہوتے ہیں۔
اسی طرح بقول امام احمدکہ جعفر بن برقان الجزری فی نفسہ ثقہ ہیں لیکن جب زہری سے روایت کرتے ہیں تو ان کی تضعیف کی جاتی ہے۔ (ضوابط الجرح والتعدیل ص۵۵، ٥٦)
اس خاص موضوع سے متعلق صالح بن حامد الرفاعی نے الثقات الذین ضعفوا فی بعض شیوخھم نامی کتاب تالیف کی ہے۔
(۳) کچھ راوی ایسے ہیں جن کی روایتیں بعض حالات میں صحیح اور بعض حالات میں ضعیف ہوتی ہیں مثلاً وہ رواۃ جو آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے یا کسی عارضہ کی وجہ سے سوئے حفظ کے شکار ہوگئے تھے۔
مثال : صالح بن نبھان مولی التوامہ سےجن لوگوں نے ابتدا میں سنا (جیسے محمد بن ابی ذئب) ان کا سماع درست ہے اور جن لوگوں نے آخری عمر میں اختلاط کے بعد سنا (جیسے سفیان ثوری) تو ان کے سماع کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔
(٤) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ راوی جب کتاب سے روایت کرتا ہے تو ثقہ ہوتا ہے اور جب حفظ سے روایت کرتا ہے تو ضعیف ہوتا ہے،
مثال : یونس بن یزید ایلی کے بارے میں ابوزرعہ کا قول ہے کہ یہ کتاب سے روایت کرنے میں ثقہ تھے لیکن جب حفظ سے روایت کرنے لگے تو ضعفاء میں شمار کئے جانے لگے۔
قاعدہ نمبر (۱۵)
کبھی ائمہ جرح وتعدیل ایک راوی کو ثقہ اور دوسرے کو ضعیف کہتے ہیں جس سے ان کا مقصد قطعی حکم لگانا نہیں ہوتا ہے بلکہ دوسرے کے مقابلہ میں حکم لگانا مقصد ہوتا ہے۔
مثال : امام دارمی نے جب یحیی بن معین سے علاء بنعبدالرحمن اور سعید مقبری کے بارے میں سوال کیا کہ دونوں میں کون بہتر ہے تو یحیی بن معین نے کہا کہ : سعید اوثق ہے اور علاء بن عبدالرحمن ضعیف ہے یعنی سعید کی بہ نسبت علاء ضعیف ہیں۔
اسی طرح محمد بن ابراہیم بن ابی عدی اور ازھر بن سعد سمان دونوں ثقہ ہیں، ان دونوں کے بارے میں امام احمد کا قول ہے: ابن أبی عدی أحب إلی من أزھر
اس قول سے ازھر کی تضعیف مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتلانا ہے کہ ابن عدی ازھر کے مقابلہ میں اوثق ہیں۔
(ضوابط الجرح والتعدیل ص۵۸)
اس قاعدہ کی وجہ سے باحث پر ضروری ہے کہ وہ ائمۂ جرح وتعدیل کے اقوال کو نقل کرتے وقت الفاظ جرح وتعدیل کے سیاق وسباق اور قرائن کو بھی ملحوظ رکھے۔
قاعدہ نمبر (١٦)
متقدمین کبھی ثقہ اور صدوق دونوں کے لیے ثقہ کا لفط استعمال کرتے ہیں اور کبھی راوی پر حکم لگاتے ہوئے دونوں الفاظ کو ملاکر ثقة صدوق کہتے ہیں، حالاں کہ ثقہ کی حدیث تو صحیح شمار کی جاتی ہے اور صدوق کی روایت حسن شمار کی جاتی ہے۔
اس بات کی وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ متقدمین کے یہاں حدیث کی دوہی قسمیں تھی, صحیح اور ضعیف اس لیے وہ ثقہ اور صدوق کو ایک قرار دیتے تھے اور اس کے مقابلہ میں ضعیف استعمال کرتے تھے جب کہ متأخرین کے نزدیک تین قسمیں ہیں صحیح، حسن، ضعیف ،
ثقہ کی روایت کو صحیح ، صدوق کی روایت کو حسن اور ضعیف کی روایت کو ضعیف کہتے تھے۔
(ضوابط الجرح والتعدیل:۵۹)
اس قاعدہ کے پیش نظر باحث پر ضروری ہے کہ جب کوئی امام کسی راوی پر صدوق کا اطلاق کریں تو یہ دیکھ لے کہ صدوق سے صدوق ہی مراد ہے یا ثقہ مراد ہے، اس کے بعد راوی کے متعلق کوئی فیصلہ کرے۔
قاعدہ نمبر (۱۷)
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک راوی کسی فن میں اپنی محنت اور مجاہدہ کی وجہ سے امامت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور اس فن میں اس کی بات حجت ہوتی ہے لیکن فن حدیث میں اس کی حدیث قابل احتجاج نہیں ہوتی بلکہ کبھی اس کی روایت درجۂ اعتبار سے بھی ساقط ہوجاتی ہے۔
جیسے عاصم بن ابی النجود مقری کے بارے میں حافظ ذہبی نے لکھا ہے کہ عاصم فن قرأت میں ثقہ اور ثبت ہے لیکن فن حدیث میں صدوق ہے،
ابو زرعہ اور ایک جماعت نے عاصم کی توثیق کی ہے اور ابوحاتم نے عاصم کے بارے میں محله الصدق کہا ہے یعنی ان کی روایت حسن درجہ کی ہے،
دارقطنی نے کہا کہ فی حفظه شی ٔ یعنی حدیث کی روایت میں ان کا حافظہ قوی نہیں تھا۔
اسی طرح حفص بن سلیمان علم قرأت میں امام وحجت تھے لیکن فن حدیث میں واہی تھے.
برخلاف اعمش حدیث میں ثبت و ثقہ تھے لیکن قرأت میں کمزور تھے۔
قاعدہ نمبر (۱۸)
الفاظ جرح وتعدیل کے نقل کرنے کے بارے میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ متقدمین کی اصل کتابوں سے ہی الفاظ جرح وتعدیل نقل کئے جائیں، اس لیے کہ کبھی متاخرین اختصار اور روایت بالمعنی سے کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے کبھی غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
جیسے ابو حاتم نے شہر بن حوشب کے بارے میں اپنی کتاب ”الجرح والتعدیل “میں یہ لکھا ہے شھربن حوشب أحب إلی من أبی ھارون العبدی ومن بشر بن حرب ولیس بدون أبی الزبیر لایحتج بحدیثه
امام ذہبی نے اس عبارت کا اپنی کتاب میزان الاعتدال میں اس طرح اختصار کیا قال أبو حاتم لیس بدون أبی الزبیر
(ضوابط الجرح والتعدیل :٦١)
اس طرح اختصار کرنے کی وجہ سے بات واضح نہیں ہورہی ہے، اس لیے باحث کو چاہیے کہ اصل کتابوں کی طرف بھی مراجعت کرے۔
قاعدہ نمبر (۱۹)
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ متأخرین میں سے کوئی کسی راوی کے بارے میں متقدمین کے کلام پر مطلع نہیں ہوتا تو اس کے پاس اس راوی کے متعلق جتنا علم ہوتا ہے اسی کو بیان کردیتا ہے جس کی وجہ سے وہ راوی متأخرین کے نزدیک صدوق یا ضعیف ہوجاتا ہے حالاں کہ متقدمین سے اس کی ثقاہت منقول ہوتی ہے، اس لیے متقدمین کی کتابوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔
جیسے عبداللہ بن ابی سلیمان اموی مولاھم کے بارے میں عثمان بن سعید دارمی نے ابن معین سے توثیق نقل کی ہے، لیکن حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں عبداللہ بن ابی سلیمان کے بارے میں ابو حاتم کا قول ”شیخ“ نقل کیا اور لکھا ہے کہ ابن حبان نے عبداللہ بن ابی سلیمان کو اپنی کتاب ”کتاب الثقات “میں ذکر کیا ہے پھر حافظ صاحب نے تقریب التہذیب میں عبداللہ بن ابی سلیمان کے بارے میں صدوق ہونے کا فیصلہ کیا، اگر ابن معین کی توثیق کا ابن حجر کو علم ہوتا تووہ ضرور عبداللہ کی توثیق کردیتے!
(ضوابط الجرح والتعدیل:٦٢)
قاعدہ نمبر (۲۰)
متقدمین کے بارے میں جس ضبط واتقان کی شرط لگائی گئی ہے متأخرین رواۃ میں اس طرح کا ضبط واتقان کا ہونا ضروری نہیں ہے.
حافظ ذہبی نے متقدمین اور متأخرین کے درمیان فاصل ۳۰۰ه کو قرار دیا ہے، یعنی ۳۰۰ھ سے پہلے وفات پاچکے وہ متقدمین اور بعد والے متأخرین شمار کیےجائیں گے۔
(ضوابط الجرح والتعدیل ص٦۲)
قاعدہ نمبر (۲۱)
یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جرح کےجتنے بھی اصول ہیں، یہ سب غیر صحابی کےلیے ہیں، اس لیے کہ تمام صحابہ بلاتفصیل وتفریق عادل ہیں، ان کی عدالت امر مسلم ہے، کتاب وسنت اوراجماع امت اس کی دلیل ہے. اس لیے جب بھی کسی راوی کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ یہ صحابی رسول ہیں چاہے ان کا نام ونسب معلوم ہو یا نہ ہو، صحابی کا علم ہوتےہی سارے اصول معطل ہوجائیں گے، اسی لیے یہ مشہور مقولہ ہے کہ جھالة الصحابة لاتضر
قاعدہ نمبر (۲۲)
چوں کہ جرح ایک شرعی ضرورت کی بنا پر کی جاتی ہے اس لیے الضرورۃ تتقدر بقدر الضرورۃ کے قاعدہ کے مطابق اسے ضرورت کی حد تک ہی استعمال کرنا چاہیے. بہت زیادہ مبالغہ آرائی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے
امام سخاوی فرماتے ہیں کہ: لایجوز التجریح بشیئین إذا حصل بواحد یعنی اگر کسی ایک سبب سے جرح ثابت ہوجائے تو دوسرا سبب ذکر کرنا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح جو لوگ کتابوں سے جرح یا تعدیل نقل کرتےہیں، ان کے لیےبھی ضروری ہے کہ اگر کسی راوی کےبارے میں جرح نقل کررہے ہیں اور اس راوی کی تعدیل بھی کی گئی ہے تو تعدیل بھی ضرور نقل کریں تاکہ قاری یہ نہ سمجھے کہ اس راوی کے بارے میں صرف جرح ہی وارد ہے، تعدیل وارد نہیں ہے۔
اسی وجہ سے علامہ ذہبی نےابن الجوزی کی کتاب” الموضوعات الکبری “ پر نقد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یسرد الجرح ویسکت عن التعدیل کہ وہ جرح تو بیان کرتے ہیں لیکن تعدیل کےذکر سے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ھذا من عیوب کتابه یذکر طعن الراوی ولایذکر من وثقه۔
ابن الجوزی کی کتاب کا یہ ایک عیب ہے وہ راوی کے بارے میں جرح تو ذکر کردیتے ہیں، لیکن راوی کی عدالت وتوثیق کے اقوال نقل نہیں کرتے ۔
(میزان الاعتدال ، تہذیب التہذیب ، جرح وتعدیل ص: ۱۹۹)
قاعدہ نمبر (۲۳)
کسی راوی کے بارے میں آخری فیصلہ کرنے سے قبل راوی کے سلسلے میں ہر قسم کی شہادت اور اس کی زندگی کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرلینی چاہیے، نیز اس کے بارے میں منقول اقوال پر ایک تنقیدی نظر ڈال لینی چاہیے اور جب یقین ہوجائے کہ ناقد جو کہہ رہا ہے وہی پہلو راجح ہے تب ہی اس راوی پر کوئی حکم صادر کرنا چاہیے۔
(تدریب الراوی ، جرح وتعدیل ص ۲۰۱)
قاعدہ نمبر (٢٤)
ہر وہ جرح جو بطور مذاق صادر ہو اس کا بھی کوئی اعتبار نہ ہوگاجیسا کہ عفان بن مسلم ، علی بن مدینی اور ابوبکر بن ابی شیبہ ایک جگہ بیٹھے آپس میں گفتگو کررہے تھے دورانِ گفتگو عفان بن مسلم نے کہا کہ ثلاثة یضعفون فی ثلاثة، علی بن المدینی فی حماد بن زید و أحمد فی إبراهیم بن سعد وابن أبی شیبۃ فی شریك
تین افرادتین افراد سےروایت کرنے میں ضعیف ہیں علی بن مدینی حماد بن زیدسے روایت کرنے میں ، احمد، ابراہیم بن سعد سے روایت کرنے میں اور ابن ابی شیبہ، شریک سے روایت کرنے ضعیف ہیں تو عفان کی یہ بات سن کر علی بن المدینی نے فرمایا: وعفان فی شعبة اور عفان، شعبہ سے روایت کرنے میں ضعیف ہیں۔
امام ذہبی فرماتے ہیں کہ: ان لوگوں نے بطور مذاق ایک دوسرے پر اس طرح کلام کیا تھا اور یہ اس لیے کہا تھا کہ یہ لوگ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مذکورین (حماد بن زید، ابراہیم بن سعد اور شریک) سے کم سِنّی میں روایت کیا تھا۔ (جرح وتعدیل ص: ۲۰۵ بحوالہ میزان الاعتدال)
قاعدہ نمبر (۲۵)
جرح میں ایسے اسباب کا سہارالینا جو مجروح کرنے کے لیے کافی نہ ہوں تو ان سے جرح ثابت نہ ہوگی مثلاً بعض راویوں پر اس لیے جرح کی گئی کہ وہ بادشاہوں اور امراء کی مجالس میں شریک ہوتے تھے،
علی بن عامر پر اس لیے جرح کی گئی کہ وہ چھوٹے بڑے ہر ایک سے روایت کرتے تھے حالاں کہ اپنے سے چھوٹے آدمی سے روایت کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
اس جیسی دیگر بہت سے مثالیں موجود ہیں کہ جب محدث سے کسی کی جرح کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس طرح کی پھسپھسی دلیل بیان کی ، ظاہر ہے کہ اس طرح کے اسباب راوی کو مجروح کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتے !اس لیے باحث کو چاہیے کسی راوی کے متعلق جرح کا علم ہو تو سبب بھی دیکھ لیا کرے تاکہ کسی ایسے کمزورسبب سے راوی کو مجروح کرنا لازم نہ آئے جو درحقیقت جرح کا سبب نہ بن سکتا ہو۔
(جرح وتعدیل حذف واضافہ کے ساتھ ص ۲۰۸)
قاعدہ نمبر (٢٦)
محدثین کا قول ھذا حدیث صحیح الإسناد یا ھذا حدیث حسن الإسناد یہ ان کے قول ھذا حدیث صحیح اور ھذا حدیث حسن سے کم درجہ کا ہے۔
وجہ اسکی یہ ہے کہ بہت سی مرتبہ ھذا حدیث صحیح الإسناد کہا جاتا ہے لیکن متن حدیث صحیح نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ حدیث شاذ یا معلل ہوتی ہے۔
ہاں ! اگر کوئی قابل اعتماد محدث اپنے قول صحیح الإسناد پر اکتفاء کرے اور حدیث کے بارے میں کسی علت قادحہ کا ذکر نہ کرے تو ظاہر یہی ہے کہ وہ حدیث فی نفسہ بھی صحیح ہوگی ،اس لیے کہ حدیث میں علت قادحہ کا نہ ہونا یہی اصل ہے جیسا کہ حافظ ابن صلاح نے مقدمہ میں ص: ٤٣ پر ذکر کیا ہے۔
زین عراقی فرماتے ہیں کہ : اسی طرح اگر کوئی قابل اعتماد محدث کسی حدیث کے بارے میں اپنے قول حسن الإسناد پر اکتفاء کرلے اور اس کے بعد حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگانے سے سکوت اختیار کرے تو اس حدیث پر حسن ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔ (الرفع والتکمیل : ۱۸۷/۱۸۸/۱۸۹)
قاعدہ نمبر (۲۷)
اگر احکام سے متعلق کسی کتاب میں کسی حدیث کے بارے میں لایصح یا لایثبت ھذا الحدیث کہا گیا ہو تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث احکام میں قابل استدلال نہیں ہے، اس سے حدیث کا باطل یا موضوع ہونا لازم نہ آئے گا۔
اور اگر موضوع احادیث سے متعلق کسی کتاب میں مذکورہ دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک کا اطلاق کسی حدیث کے بارے میں کیا گیا ہو تو اس سے یہ مراد ہوتا ہے کہ یہ حدیث باطل یا موضوع ہے۔
اس پر دلیل کے طور پر شیخ عبدالفتاح ابوغدہ ؒ نے المصنوع فی معرفة الحدیث الموضوع لعلی القاری اور قواعد فی علوم الحدیث للتھانوی کی تعلیقات میں بکثرت مثالیں پیش فرمائی ہیں۔ (حاشیہ الرفع والتکمیل ١٩٤)
قاعدہ نمبر (۲۸)
اگر ائمہ ٔ جرح وتعدیل کسی راوی کی توثیق وتضعیف سے سکوت اختیار کریں تو ان کا سکوت اختیار کرنا اس راوی کی توثیق پر دلالت کرے گا۔ (حاشیہ الرفع والتکمیل ص ۲۳۱، ٢٤٦)
قاعدہ نمبر (۲۹)
جب ثقہ راوی کسی ایسے راوی سے روایت کرے جو معروف بالضعف ہوتو ثقہ سے اس سے روایت کرنے کی وجہ سے اس ضعیف راوی کو کسی قسم کی تقویت حاصل نہ ہوگی۔
اور اگر ثقہ راوی کسی مجہول سے روایت کرے تو اس مجہول کو تقویت حاصل ہوجائے گی۔ (حاشیہ الرفع والتکمیل ص: ۲۳۱)
قاعدہ نمبر (۳۰)
امام ابوحاتم رازی کا کسی راوی کو مجہول قراردینا اس وقت تک حجت نہیں ہوگا جب تک دیگر ائمۂ جرح وتعدیل ان کو موافقت نہ کریں۔ اس لیے کہ امام ابوحاتم رازی نے بہت سے ایسے رواۃ کی تجہیل کی ہیں جو درحقیقت معروف وثقہ ہیں۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ حکم بن عبداللہ کے بارے میں ابن ابی حاتم نے اپنے والد ابوحاتم سے مجہول کا قول نقل کیا ہے، حالاں کہ حکم بن عبداللہ مجہول نہیں ہے، اس لیےکہ حکم بن عبداللہ سے نقل کرنےوالے چار ثقہ راوی ہیں اور امام ذھلی نے حکم بن عبداللہ کی توثیق کی ہے۔
اس طرح اور بھی چند مثالیں ہیں جو الرفع والتکمیل : ٢٥٦ پر نقل کی گئی ہیں۔
قاعدہ نمبر (۳۱)
میزان الاعتدال میں بہت سے رواۃ کے بارے میں ابن القطان الفاسی (م: ٦٢٨) کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے لایعرف له حال یا لم تثبت عدالته اس قول سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ راوی مجہول ہے یا ثقہ نہیں ہے۔ یہ ابن القطان کی خاص اصطلاح ہے جس میں کسی نے ان کی موافقت نہیں کی ہے۔
ابن القطان یہ دوالفاظ ان رواۃ کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جن کے بارے میں ان رواۃ کے معاصرین نے کوئی ایسی بات نقل نہیں کی ہوتی ہے جو ان کی عدالت پر دلالت کرے۔ اس طرح کے رواۃ صحیحین میں بھی بکثرت ہیں جن کی نہ کسی نے تضعیف کی ہیں اور نہ وہ مجہول ہیں۔
جمہور کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جن رواۃ سے ایک جماعت نقل کریں اور ان سے کوئی منکر روایت منقول نہ ہو تو ان کی احادیث صحیح شمار کی جائے گی۔ (الرفع والتکمیل : ٢٥٦ تا ۲٦٠)
قاعدہ نمبر (۳۲)
اگر میزان الاعتدال ، تہذیب التہذیب اور دیگر کتابوں میں کسی راوی کے متعلق یہ نقل کیا جائےکہ ترکه یحیی القطان تو وہ راوی قابل
احتجاج ہونے سے خارج نہ ہوگا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ابوسعید یحیی بن سعید القطان (م: ۱۹۸) بقول علی المدینی متشدد تھے۔ خاص طور پر اپنے معاصرین کے بارے میں ان کا تشدد مشہور ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یحیی بن سعید کسی راوی کو اس کے متہم بالکذب ہونے کی وجہ سے ترک نہیں کرتے تھے بلکہ جب وہ کسی راوی کو دیکھتے کہ وہ اپنے حافظہ سے کبھی ایک بات نقل کرتا ہے اور کبھی اسی حدیث میں کچھ تقدیم وتاخیر کردیتا ہے اور ایک الفاظ پر باقی نہیں رہتا تو وہ اس سے روایت لینا ترک کردیتے تھے۔
(الرفع والتکمیل ص: ٢٦٠، ۲٦۱)
قاعدہ نمبر (۳۳)
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یحیی بن معین اور دیگر ائمۂ جرح وتعدیل کی طرف سے ایک ہی راوی کے بارے میں مختلف ومتعارض اقوال منقول ہوتے ہیں۔ کبھی وہ جرح کرتے ہیں اور کبھی توثیق کرتے ہیں۔
جیسے بکر بن خنیس کوفی کے بارے میں یحیی بن معین سے تین اقوال منقول ہیں،
- (۱) لیس بشئی
- (۲) ضعیف
- (۳) شیخ صالح لابأس به
اس تعارض کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہے۔
(۱) راوی کی جس وقت جس طرح کی روایت نظر آئی اس کے مطابق حکم جاری کیا ہو۔
جیسے ایسا ہوسکتا ہے کہ یحیی بن معین کے سامنے بکر بن خنیس کی کسی وقت ایسی روایت پیش کی گئی جو یحیی بن معین کے نزدیک درست ہوگی تو انہوں نے بکر پر شیخ صالح لابأس به کا حکم لگایا۔
کبھی بکر کی ایسی روایت پیش کی گئی ہوگی جو واہی اور منکر ہوگی ،جس کی وجہ سے یحیی بن معین نے بکر پر لیس بشئی کا حکم لگایا۔
کبھی بکر کی ایسی روایت پیش کی گئی ہوگی جس میں ثقات کی مخالفت کی گئی ہوگی جس کی وجہ سے یحیی بن معین نے ضعیف کا حکم لگایا۔
(۲) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ راوی فی نفسہ ثقہ ہوتا ہے ، اس لیے اس کی توثیق کی جاتی ہے لیکن کسی خاص شیخ سے نقل کرنے میں ضعیف ہوتا ہے اس لیے اس کی تضعیف کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں دوقول ہوجاتے ہیں۔
(۳) کبھی راوی فی نفسہ ثقہ ہوتا ہے تو اس کی توثیق کی جاتی ہےلیکن اپنے کسی معاصر کے مقابلہ میں ضعیف ہوتا ہے تو اس کی اس معاصر کے مقابلہ میں تضعیف کردی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے بارے میں دوقول ہوجاتے ہیں۔
قاعدہ نمبر (٣٤)
چند محدثین احادیث اور احادیث کے رواۃ پر جرح کرنے میں متشدد تھے جنہوں نے جلد بازی میں راوی میں معمولی عیب یا حدیث کے صحیح حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے احادیث پر وضع یا ضعف کا حکم لگادیا ۔ ان کے نام مندرجۂ ذیل ہیں۔
(۱) ابن الجوزی مؤلف کتاب الموضوعات، العلل المتناھیة فی الأحادیث الواھیة
(۲) عمر بن بدرالموصلی مؤلف رسالة فی الموضوعات
یہ رسالہ ابن الجوزی کی الموضوعات کی تلخیص ہے۔
یہ رسالہ ”المغنی عن الحفظ والکتاب فیما لم یصح فیه شئی من الأحادیث“ کے نام سے مطبوع ہے۔
(۳) رضی الدین الحسن بن محمد صاغانی ان کے موضوع احادیث کے بارے میں دورسالے ہیں۔
(٤) الحسین بن ابراہیم جوزقانی مؤلف کتاب الاباطیل
(۵) شیخ ابن تیمیہ حرانی مؤلف منھاج السنة
(٦) مجدالدین محمد بن یعقوب فیروزآبادی مؤلف قاموس المحیط اور سفر السعادۃ
(الرفع والتکمیل ص ۳۲۰ تا ۳۳۱)
قاعدہ نمبر (۳۵)
کتب اسمائے رجال میں بہت سے رواۃ پر مرجئہ ہونے کا حکم لگایا گیا ہے جیسے فلان مرجئی رمی بالإرجاء، فیہ رجاء وغیرہ ، کبھی ارجا کی حقیقت سے ناواقف باحث راوی کو فرقۂ ضالہ سے تعلق رکھنے والا سمجھ لیتا ہے، حالاں کہ واقعۃً وہ ایسا راوی نہیں ہوتا ہے۔
دراصل ارجاء کی دوقسمیں ہیں۔
(۱) ایک وہ گروہ ہے جو مشاجرات صحابہ کے سلسلہ میں سکوت اختیار کرتےہیں اور دونوں جماعتوں میں سے کسی کی تصویب نہیں کرتے ہیں گویا وہ مشاجرات صحابہ میں تصویب احدی الطائفتین کو مؤخر کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ورع وتقوی کی بات ہے، اس جماعت اور گروہ کو مرجئہ اہل سنت کہا جاتا ہے۔
(۲) دوسرا وہ گروہ جو یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی معصیت مضر نہیں۔ اگر ایمان موجود ہے تو آدمی نافرمانی کے باوجود جنت میں داخل ہوجائےگا۔اس اعتقاد رکھنے والے گروہ کو فرقۂ ضالہ میں شمار کیا گیا۔
باحث کو چاہیے کہ جب کسی راوی کے بارے میں مرجئہ ہونے کاکلام دیکھے تو اس بات کی تحقیق کرلے کہ اس راوی کا تعلق مرجئہ اہل سنت سے تھا یا مرجئہ ضالہ سے تھا۔
(الرفع والتکمیل ص : ۳۵۲)
الحمد للہ قواعد جرح وتعدیل یہاں مکمل ہوئے ۔۔۔

0 Comments