صحبت صالحین

صحبت صالحین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحبت کی تاثیر مسلمہ حقیقت ہے

            صحبت کے ذریعہ صفات کا منتقل ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے، آدمی اپنے ہم نشیں کا اثر قبول کئے بغیر نہیں رہتا، صالحین کی صحبت سے اچھے صفات آتے ہیں، اور بدوں کی صحبت سے بدی منتقل ہوتی ہے،ملا علی قاری ؒ امام غزالی ؒ سے نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : الطِّبَاعَ مَجْبُولَةٌ عَلَى التَّشَبُّهِ وَالِاقْتِدَاءِ بَلِ الطَّبْعُ يَسْرِقُ مِنَ الطَّبْعِ مِنْ حَيْثُ لَا يَدْرِي صَاحِبُهُ ۔ (مرقاۃ المتاتیح، باب الحب فی اللہ) یعنی انسانی طبیعت میں مشابہت اختیار کرنا اور نقل کرنا فطری طور پر داخل ہے، بلکہ انسانی طبیعت دوسری طبیعت سے اس طرح صفات و عادات چوری کرتی ہے کہ خود انسان اس سے بے خبر ہوتا ہے۔

            شیخ عبد القادر رائے پوریؒ نے فرمایا:صحبت کا اثر ایک مسلمہ چیز ہے، جس طرح ہر چیز میں اللہ تبارک و تعالی نے ایک خصوصیت رکھی ہے ، اسی طرح صحبت اور محبت کا بھی ایک خاصہ ہے، صحبت کا اثر تو اتنی بدیہی چیز ہے کہ عام لوگ بھی جانتے ہیں، حتی کہ اپنے بچوں کو کہا کرتے ہیںکہ دیکھو! برے لوگوں کے پاس نہ بیٹھنا، اور ہمیشہ اچھے لوگوں کے پاس بیٹھنے کی کوشش کیا کرتے ہیں،یہ اس لئے کہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ (سوانح حضرت رائے پوری ۳۲۷)

            اس حقیقت کو ایک حسی مثال سے رسول اللہ ﷺ نے سمجھایا ہے، حضرت ابوموسی اشعری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

            مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صَاحِبِ المِسْكِ وَكِيرِ الحَدَّادِ، لايَعْدمُك مِنْ صَاحِبِ المِسْكِ اِمَّا تَشْتَرِيهِ، اوتَجِدُ رِيحَهُ، وَكِيرُ الحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَك اوْ ثَوْبَك  او  تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً۔ (بخاری ، مسلم)

            بہتر ہم نشیں کی مثال مُشک والے آدمی کی سی ہے، یا تو تو مشک خریدے گا، یا کم از کم اس کی خوشبو پالے گا،اور بدتر ہم نشیں کی مثال آگ کی بھٹی والے کی طرح سے ہے، وہ تیرے بدن یا کپڑوں کو جلا ڈالے گی، اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اس کی بدبو تو ضرور پریشان کرے گی۔

            صحبت کی تاثیر اتنی قوی ہے کہ مختلف انواع کے افراد میں بھی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں ، چنانچہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایاکہ گھوڑا رکھنے والوں میں تکبر ہوتا ہے، اور بکریاں رکھنے والوں میں وقار اور سکینت ہوتی ہے۔(مشکوۃ) اس حدیث کے بعد ملا علی قاری ؒ نے نقل کیا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیوان کی صحبت بھی نفس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ (مرقاۃ)

             اس سے بھی آگے بڑھ کر آدمی بے جان چیزوں کا اثر بھی قبول کرلیتا ہے، قاری طیب صاحبؒ فرماتے ہیں:مثل مشہور ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، ہر چیز اپنا اثر کرتی ہے، آپ روز دریا کے کنارے پر دو چار گھنٹے جاکر بیٹھا کریں مزاج میں رطوبت پیدا ہوگی، تری آجائے گی، اس لئے کہ پانی کی صحبت اختیار کی، آپ آگ کے پاس بیٹھیں ، مہینہ بھر سینکتے رہیں مزاج میں جھنجھلاہٹ اور گرمی پیدا ہوجائے گی، آپ مٹی پر بیٹھیں یبوست اور خشکی پیدا ہوجائے گی، مٹی کا اثر ہی یہ ہے ، جب یہ ساری چیزیں جو بے شعور اور بے جان کہلاتی ہیں یہ بھی اثر کرتی ہیں کسی جاندار کے پاس بیٹھیں گے تو اس کا اثر کیوں نہ ہوگا، اور جاندار کے ساتھ اگر ایماندار کے پاس بیٹھیں گے تو ایمان کا اثر کیوں نہ ہوگا۔ (خطبات حکیم الاسلام ۳؍ ۷۸)

صحیح استعمال

            اس فطرت انسانی کا صحیح استعمال کرکے اس سے بڑی خیر حاصل کی جاسکتی ہے، کیوں کہ دینی مزاج و مذاق ، اسلامی جذبات و خیالات اور شرعی اطوار و اخلاق کو منتقل کرنے کے لئے اہل اللہ کی صحبت کامیاب اور مؤثر ثابت ہوئی ہے، خواجہ ممشاد دینوری ؒ فرمایا کرتے تھے کہ اہل صلاح کی صحبت میں بیٹھنے سے دل میں صلاح پیدا ہوتی ہے، اور اہل فساد کی صحبت میں رہ کر دل میں فساد ہوتا ہے۔ (تاریخ مشائخ چشت ۱۴۹)

            امام غزالی ؒ تحریر فرماتے ہیں: مُجَالَسَةُ الْحَرِيصِ عَلَى الدُّنْيَا تُحَرِّكُ الْحِرْصَ وَمُجَالَسَةُ الزَّاهِدِ تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا فَلِذَلِكَ تكره صحبة طلاب الدنيا ويستحب صحبة الراغبين في الآخرة ۔ (احیاء العلوم)  ’’جو شخص دنیا کا حریص ہو اس کی صحبت حرص پیدا کرتی ہے، اور جو شخص دنیا سے بے رغبت ہو اس کی صحبت سے دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے، اسی لئے دنیا کے طلبگاروں کی صحبت غیر پسندیدہ ہے، اور آخرت کی طرف رغبت کرنے والوں کی صحبت پسندیدہ ہے‘‘۔

            اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

            الرَّجُلُ عَلى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ احَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ۔ (ترمذی)

            یعنی ہر شخص اپنے دوست کی دینی حالت سے متاثر ہوہی جاتا ہے، اس لئے دوستی سے پہلے دیکھ لینا چاہئے کہ جس کو دوست بنایا جارہا ہے وہ کیسا شخص ہے۔

صحبت بذات خود مؤثر ہے

            بسا اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ خاموش بیٹھے رہنے سے، یا وعظ و نصیحت کے بغیر صرف ساتھ رہنے سے کیا فائدہ ؟ فائدہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ وعظ و نصیحت سننے کا موقع ملے، اس غلط فہمی کو دور کرنا ضروری ہے، صحبت کی تاثیر کے لئے وعظ و نصیحت شرط نہیں ہے، اس کے بغیر بھی صحبت اپنا رنگ لاتی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ :

            لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی بزرگ کی صحبت میں ہم جاکر بیٹھ گئے تو خالی صحبت اور پاس بیٹھنے سے کیا فائدہ؟جب تک کہ وہ بزرگ کچھ تعلیم نہ فرمائیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں خاصہ ہے مسارقت کا، یعنی انسان اپنی ہم نشین کے اخلاق و عادات کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے، اور یہ جذب اورمسارقت ایسی خفیہ طور پر ہوتی ہے کہ خود اس سارق کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ میں چرا رہا ہوں، اور پھر اس مسارقت کے لئے یہ بھی شرط نہیں کہ ہم نشین معتقد فیہ (ایسا شخص جس کی عقیدت و عظمت دل میں ہو)ہی ہو، بلکہ انسانی طبیعت غیر معتقد فیہ کے اخلاق و عادات کو بھی جذب کرتی ہے، تو جب غیر معتقد فیہ کے ساتھ ہی یہ مسارقت ہوتی ہے تو اگر کسی اپنے معتقد فیہ اور بزرگ کی صحبت اختیار کی جائے وہاں تو یہ مسارقت بدرجۂ اولی ہوگی، بس یہ وجہ ہے کہ بزرگوں کی خالی صحبت بھی مفید ہوتی ہے۔ (انفاس عیسی۶۴۵)

            حضرت مولانا حکیم الامت اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک مرید تھے، انہوں نے ایک دفعہ حضرت تھانوی ؒ کے پاس خط لکھا کہ حضرت! میرے اندر غصہ بہت زیادہ ہے، میں یہ چاہتا ہوں کہ میری اصلاح ہو جائے، لہذا اس کے لئے کوئی نسخہ تجویز فرمادیں ، وہ صاحب لکھنؤ سے قریب رہنے والے تھے۔حضرت نے ان کو جواب لکھا کہ لکھنؤ میں میرے ایک خلیفہ فلاں حکیم صاحب رہتے ہیں ، فلاں جگہ پر ان کا مطب ہے ، تم ان سے اجازت لے کر ان کے پاس بیٹھ جایا کرو، وہ تو اپنے کام میں مشغول رہیںگے لیکن تم ان کے پاس جاکر بیٹھ جایا کرو، یہ بھی لکھا کہ پندرہ دن تک بیٹھنے کے بعد مجھے خط لکھنا کہ کیا اثر ہوا، چنانچہ ان صاحب نے حکیم صاحب کی اجازت لے کر ان کی صحبت میں بیٹھنا شروع کیا ، پندرہ دن کے بعد انہوں نے حضرت تھانوی ؒ  کو خط لکھا کہ غصہ بالکل کافور ہوگیا ، لیکن ایک سوال ذہن میں آیا ہے کہ حکیم صاحب نے نہ مجھے کچھ کہا اور نہ میں نے ان سے کچھ کہا، صرف ان کے پاس بیٹھنے سے میرا غصہ کیسے ختم ہوگیا ؟ یہ فلسفہ میری سمجھ میں نہیں آیا ، حضرت کے پاس خط آیا تو اس کا جواب لکھا کہ جی! کہ نہ انہوں نے کچھ کہا ، نہ تم نے کچھ کہا ، لیکن ان کے دل میں جو حلم کا مادہ تھا صحبت کی تاثیر سے وہ منتقل ہوکر تمہارے دل میں آگیا۔ (واقعات پڑھئے اور عبرت لیجئے ۱۶۱)

جم غفیر کی شہادت

            قاضی ثناء اللہ پانی پتی  ؒاپنی کتاب ’’تحفۃ السالکین‘‘ میں فرماتے ہیں :

            بے شمار لوگوں کی ایک جماعت جن کا جھوٹ پر متفق ہونا عقل محال سمجھتی ہے، اور اس قسم کی جماعت ہے کہ اس کا ایک فرد ِ بشر تقوی اور علم کے باعث ایسا درجہ رکھتا ہے کہ اس پر جھوٹ کی تہمت لگانا جائز نہیں ہے ، زبان قلم سے اور قلم زبان سے (یعنی تقریر و تحریر سے) خبر دیتی ہے کہ ہم کو مشائخ کی صحبت کی وجہ سے جن کی صحبت کا سلسلہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچتا ہے ، عقائد و فقہ کے سوا جن سے وہ ان کی صحبت سے پیشتر بھی بہرہ یاب ہیں، باطن میں ایک نئی حالت پیدا ہوگئی ہے، اور اس حاصل شدہ حالت سے ان کے دل میں خدا اور خدا کے دوستوں سے محبت اور اعمال صالحہ کا شوق اور نیکیوں کی توفیق ، اور سچے اعتقادات اور زیادہ راسخ ہوگئے ہیں، یہی حالت ہے جس کو کمال کہنا چاہئے، اور یہی حالت بہت سے کمالات کی موجب ہے۔ (تصوف اور نسبت صوفیہ۱۱)

            حضرت مفتی شفیع صاحبؒ ’’مجالس حکیم الامت‘‘ کے مقدمہ کا آغاز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اسلام کے قرنِ اول سے لے کر آج تک ہر زمانے میں خلق اللہ کی تعلیم و تربیت اور اصلاح اعمال و اخلاق کے لئے علماء، صلحاء اور اولیاء اللہ کی مجلسیں نسخۂ اکسیر ثابت ہوئی ہیں‘‘۔

            حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ بزرگوں کی صحبت اکسیر اعظم ہے، بدوں اس کے کچھ نہیں ہوتا، خواہ اپنے کو کیسا ہی بڑا سمجھے۔ (ملفوظات حکیم الامت، پنجم ۲۳۱)

            مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی میاں ندویؒ فرماتے ہیں:

            خداکے صحیفوں کو دیکھ لیجیے، اللہ کے عارف بندوں کی سوانح پڑھ لیجیے، اور پھر تاریخی شہادتوں کا مطالعہ کر لیجیے، آپ دیکھیے گا کہ جب بھی انسان انسان بنتا ہے وہ ہمیشہ انسان ہی سے بنتا ہے۔ (طالبان علوم نبوت کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں ، اول ۱۹۴)

مؤثر ترین حالت

            شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب’’ اخبار الاخیار‘‘ میں لکھتے ہیں:

            برارباب الباب و اصحاب ابصار کہ زمرۂ اہل خبرت و اعتبار اند محقق و مقرر است کہ مؤثر ترین حالات بلکہ افضل عبادات مصاحبت اہل کمال و مجالست مقربان درگاہ ذوالجلال است۔

            حضرت مولانا قمر الزماں صاحب نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے :

            تمام ان ارباب فہم اور اصحاب بصیرت کے نزدیک جن کا شمار با خبر اور قابل اعتبار ہستیوں میں کیا جاتا ہے ، یہ امر محقق اور مسلّم ہے کہ مؤثر ترین حالت بلکہ افضل ترین عبادت اہل اللہ کی صحبت اور مقربان دربار خداوندی کی ہمنشینی ہے۔ (معارف صوفیہ ۲۶۸)

اصلاح کا طاقتور راستہ

            حکیم الاسلام قاری طیب صاحبؒ فرماتے ہیں:سب سے بہتر طریقہ علم اور اخلاقی کمال حاصل کرنے کا فیض صحبت ہے، اہل اللہ اور اکابر دین کی خدمت میں رہ کر ان کی زبان سے جب آدمی سنتا ہے تو علم آدمی کے دل میں اترتا ہے ، ان کے فیض صحبت سے اخلاق درست ہوتے ہیں، حضرات صحابہ ؓ کو صحابہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ حضورﷺ کے صحبت یافتہ ہیں، صحابہ اس طرح علم حاصل نہیں کرتے تھے کہ کوئی کتاب سامنے کھلی ہوئی ہے رات دن مطالعہ کررہے ہیں جس طرح ہم مطالعہ کرتے ہیں، وہ حضورﷺ کی صحبت میں بیٹھے، فیض صحبت حاصل کیا، فیض صحبت کی برکت سے علماء، عرفاء، کامل، زاہد اور درویش بن گئے، علم و اخلاق کے سارے کمالات پیدا ہوجاتے تھے، اعلی ترین طریق فیض صحبت ہے۔ (خطبات ۳؍۷۲)

            صحبت سے وہ قلبی نور منتقل ہوتا ہے جو دوسروں کے قلب کے اندر ہے، اس لئے دین میں کمال پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اہل اللہ ، اکابر دین کی صحبت ہے کہ کتاب سے وہ چیز حاصل نہیں ہوگی جو قلب سے حاصل ہوگی۔ (خطبات حکیم الاسلامؒ ۳؍۸۱)

            حضرت تھانویؒتحریر فرماتے ہیں: ىہ بات تجربہ سے بھى معلوم ہوتى ہے کہ صحبت نىک جڑ ہے تمام دىن کى۔ دىن کى حقىقت ، دىن کى حلاوت، دىن کى قوت کے جتنے ذرىعے ہىں سب سے بڑھ کر ذرىعہ ان چىزوں کا صحبت نىک ہے۔ چونکہ انسان کے اندر اﷲتعالىٰ نے ىہ خاصىت رکھى ہے کہ دوسرے انسان کے خىالات اور حالات سے بہت جلد اور بہت قوت کے ساتھ اور بدون کسى خاص کوشش کے اثر قبول کر لىتا ہے اچھا اثر بھى اور بُرا اثر بھى ، اس لئے اچھى صحبت بہت ہى بڑے فائدے کى چىز ہے۔  (حیاۃ المسلمین، روح ہفتم)

اصلاح کا آسان راستہ

            اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اعلی چیز میں مشقت زیادہ ہوتی ہے، اور انسان سہولت پسند ہے، اس لئے اس اعلی کو چھوڑ کر ادنی پر قناعت کرلیتا ہے، لیکن ’’صحبت اہل اللہ‘‘ ایک ایسی نعمت ہے جو اعلی ہونے کے باوجود اسہل بھی ہے، یعنی کامیابی کے ساتھ اللہ تک رسائی حاصل کرنے کا سب سے اعلی اور سب سے آسان طریقہ اہل اللہ کی صحبت ہے،حضرت حکیم اختر صاحبؒ نے ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحبؒ فرماتے تھے کہ حکیم اختر! یوں تو اللہ کا راستہ مشکل ہے، نفس سے مقابلہ مشکل ہے، مگر اللہ والوں کی صحبت سے اور ان کی دعاؤں سے اللہ کا راستہ نہ یہ کہ آسان ہوجاتا ہے بلکہ مزیدار بھی ہوجاتا ہے۔ (مواعظ درد محبت دوم ۱۰۹)

            حکیم الامت حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:طلب آخرت کی حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا دھیان اور دھن رہے، اور یہ کوئی مشکل بات نہیں، اور اس کے حصول کا سہل طریقہ یہ ہے کہ صحبت اہل اللہ اختیار کرو، گاہے گاہے ان سے ملتے رہو، ان کے پاس بیٹھو، ان کی باتیں سنو، ان سے تعلق رکھو۔ (انفاس عیسی ۲۹۴)

            مؤرخ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی شہادت ملاحظہ کیجئے، لکھتے ہیں:

            قدیم زمانہ میں صحبت سب سے آسان طریقہ علاج تھا، بڑے بڑے ائمہ فن اور علماء خدا کے ایسے مخلص و ربّانی بندوں کی تلاش میں رہتے تھے، خواہ وہ علم میں ان سے کم مرتبہ ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ ان کی مجلس اور صحبت میں وہ کچھ ملتا تھا، جو اصلاح حال و تربیت باطنی میں ممد و معاون تھا، نفس اور شیطان سے حفاظت کا ذریعہ ہوتا۔ (دستور حیات ۲۱۸)

            مفتی تقی عثمانی نے فرمایا کہ ہمارے بزرگوں نے فرمایا کہ اس وقت دین کو حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی اہل اللہ کی صحبت اختیار کرے، اور ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی سمجھ رکھتے ہیں اور دین پر عمل پیرا ہیں ، جو شخص جتنی صحبت اختیار کرے گا وہ اتنا ہی دین کے اندر ترقی کرے گا۔ (اصلاحی خطبات ۱۰ ؍۱۳۸)

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے