تزکیہ بھی مقاصد نبوت میں سے ہے

تزکیہ بھی مقاصد نبوت میں سے ہے

مقاصد نبوت

            اللہ تعالی نے انسانیت کی رہبری کے لئے اور ان کو کمال عبدیت تک پہنچانے ، اور دائمی کامیابی سے سر خرو کرنے کے لئے رسالت و نبوت کا سلسلہ جاری فرمایا، اور اس کے لئے اپنے برگزیدہ بندوں کا انتخاب فرماکر ان کو رسالت و نبوت کے عظیم منصب سے سرفراز فرمایا، ان عظیم ہستیوں میں ایک نمایاں ہستی سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کی ہے، جن کو اللہ تعالی نے تمام نبیوں کا سردار بناکر رسالت کو ان پر مکمل فرمادیا۔

            رسالت ایک بڑی ذمہ داری ہے، جو لوگوں کی ہدایت کے لئے رسولوں پر عائد کی جاتی ہے، اس ذمہ داری میں ہدایت کا سامان ہوتا ہے، وہ فریضہ لوگوں کی ہدایت کے ضروری بھی ہے اور کافی بھی، فریضۂ رسالت کے طور پر آپ ﷺ کو تین فرائض عطا فرمائے، اللہ تعالی قرآن کریم میں ان کو اس طرح بیان فرماتے ہیں :

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۔ (آل عمران آیت ۱۶۴)

            ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے‘‘

            اسی مضمون کی قریب قریب ان ہی الفاظ میں دوآیتیں اور بھی ہیں، ان آیتوں میں بیان کردہ تین فرائض یہ ہیں(۱) تلاوت آیات(۲)تزکیہ (۳)تعلیم الکتاب والحکمہ۔

            (۱) تلاوت آیات:  نبوت کی پہلی ذمہ داری ہے، یعنی قرآن کریم کی آیات لوگوں کو سنانا، تاکہ قرآن کریم کے احکامات و مطالبات لوگوں تک پہنچیں، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اسلام اور اس کے بنیادی احکام کی طرف دعوت دی ہے ، اس میں عقائد کا بیان ہے، اللہ تعالی کی صفات کمالیہ کو دلائل کے ساتھ کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے،قیامت ، حشر و نشر، حساب و کتاب اور جنت و جہنم کی حقانیت اور اس کے احوال مذکور ہیں، اور بہت سے اخلاق حسنہ اور اعمال طیبہ کی طرف دعوت دی گئی ہے، ان مضامین پر مشتمل قرآنی آیتیںجب ان عربی داں لوگوںکے سامنے پڑھی جائیں گی تو قرآن کریم کا پیغام ان تک پہنچ جائے گا، اس طرح تلاوت قرآن کے ذریعہ احکام قرآن کی تبلیغ ہوجائے گی، پس تلاوت آیات کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا حکم ہے، ابن حجرؒ فرماتے ہیں:وتلاوتہ ما انزل الیہ ھو التبلیغ (فتح الباری،۱۳/۵۰۴، دار المعرفۃ بیروت) یعنی آپ ﷺ کاقرآن کریم کی تلاوت کرنا تبلیغ ہی تھا۔

            (۲)تعلیم کتاب و حکمت:  بھی منصب نبوت کا دوسرا فرض ہے، کتاب یعنی قرآن کریم اور حکمت یعنی سنت رسول اللہ ﷺ کی تعلیم دینا، اور قرآن و سنت کو جاننے والے افراد تیار کرنا۔ اس ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : انما بعثت معلما ۔ (مشکوۃ)  یعنی میں معلّم بناکر بھیجا گیا ہوں۔

            (۳)تزکیہ :  کا معنی ہوتا ہے پاک کرنا، (اردو میںحاصل مصدر کے طور پر صرف ’’پاکی‘‘ کے معنی میں بھی مستعمل ہے) یعنی لوگوں کو منہیات شرعیہ اور مکروہات دینیہ سے پاک کرنا، چاہے ان امور ممنوعہ کا تعلق عقائد سے ہو یا افکار و اعمال سے، آدمی کو ہر ظاہری و باطنی گندگی سے پاک کرنے کا نام تزکیہ ہے، تمام ممنوعات شرعیہ سے خلاصی حاصل کرنے کا مفہوم تو براہ راست اس میں موجود ہے، اوامر کا امتثال بھی اس میں داخل ہے، کیوں کہ ان کا ترک محظور شرعی ہے، یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ تزکیہ تقوی کے مترادف ہے، تقوی کا معنی پرہیز کرنا، گویا اس کا اصل مفہوم ہے اجتناب نواہی، لیکن نتیجہ کے طور پر امتثال اوامر بھی اس میں شامل ہوگیا ہے، اب جب تقوی کا لفظ بولا جاتا ہے تو یہ مفہوم ذہن میں آتا ہے’’ ظاہری اور باطنی طور پر مکمل دین پر عمل کرنا‘‘ ، اور یہی مفہوم ’’تزکیہ‘‘ کا بھی ہے، اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں : فَلَا تُزَكُّوْا اَنْفُسَكُمْ ہُوَاَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى (النجم)یعنی اپنے آپ کو مقدس مت سمجھا کرو ،تقوی والوں کو وہی خوب جانتا ہے،اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’تقوی‘‘ اور ’’تزکیہ‘‘ ایک ہی ہے، کیوں کہ بات اس طرح ہونی چاہئے کہ’’ تم اپنے آپ کو مقدس مت سمجھا کرو ، وہ مقدس لوگوں کو خوب جانتا ہے‘‘، اللہ تعالی نے اسلوب بدل کر تقوی کا لفظ اس کی جگہ رکھ دیا جس سے یہ واضح ہوا کہ تقوی وہی ’’تزکیہ‘‘ ہے، پس جس طرح تقوی والا (متقی) وہ ہی شخص ہوتا ہے جو تمام گناہوں سے بچنے والا ہو اسی طرح تزکیہ والا بھی وہ ہی ہوگا جو تمام ممنوعات سے رکا ہوا ہو۔

            پس لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے ، اوران کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کردینے پر رسالت کا فریضہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان کو اسلامی تعلیمات سے مزین کرنے،اور عملی طور پر ان کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی فکر کرنا فرائض میں شامل ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: انّمَا بُعِثتُ لاتمِّمَ مكَارمَ الاخلاقِ (بیھقی) یعنی میں اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔

فرائض کی ادائیگی

            تمام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان فرائض کو کامل طور پر ادا فرمایا، علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:رسول کریم ﷺ نے ان تینوں فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیا، لوگوں کو احکام الہی اور آیات ربانی پڑھ کر سنائے، اور ان کو کتاب الہی اور حکمت ربانی کی باتیں سکھائیں، اور اسی پر اکتفاء نہ کی، بلکہ اپنی صحبت، فیض تاثیر اور طریق تدبیر سے پاک و صاف بھی کیا، نفوس کا تزکیہ فرمایا، قلوب کے امراض کا علاج کیا، اور برائیوں اور بدیوں کے زنگ اور میل کو دور کرکے اخلاق انسانی کو نکھارا، اور سنوارا، یہ دونوں ظاہری اور باطنی فرض یکساں اہمیت سے ادا ہوتے رہے۔ (مقدمہ’’ مولانا الیاس صاحب اور ان کی دینی دعوت ‘‘)

امت مسلمہ نبی ﷺ کی جانشین

            رسول اللہ ﷺ کے بعد امت مسلمہ پر یہ تینوں فرائض عائد کئے گئے، سید صاحبؒ لکھتے ہیں:

            رسول کریم ﷺ کو کار نبوت کے جوتین فرض عطا ہوئے ہیں تلاوت احکام، تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ، یہ تینوں فرض امت مسلمہ پر بھی بطور فرض کفایہ عائد ہیں، چنانچہ قرنا بعد قرن اکابر ائمہ امت نے ان تینوں فریضوں کی ادائیگی میں پوری توجہ اور کوشش مبذول فرمائی، اور انہیں کے مجاہدات کا نور ہے جس سے کاشانۂ اسلام میں روشنی ہے، نبوت کے یہ تینوں فرض اس آیت میں یکجا ہیں۔ (ایضا ۱۲)

جامعیت

            ابتداء میں بعثت کے تمام مقاصد کی تکمیل ایک ساتھ ہوا کرتی تھی، رسول اللہ ﷺ بیک وقت دعوت و تبلیغ ، تعلیم قرآن و سنت اور تزکیہ و اصلاح نفس کا کام انجام دیتے تھے، اور استفادہ کرنے والے ایک ہی صحبت سے مکمل دینی کمال حاصل کرتے تھے، ان تینوں فرائض کو رسول اکرم ﷺ نے اس خوبی سے ادا فرمایا کہ کسی ایک فرض میں بھی جھول نہیں آنے دیا، تبلیغ اسلام کا حق ادا کیا لیکن تعلیم سے غافل نہیں ہوئے، اسلامی تعلیمات کو کھول کھول کر امت کے سامنے رکھا ، اور باریک باریک مسائل سے بھی امت کو آگاہ کیا، اور زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق بہترین ہدایات امت کو دیں، لیکن ان مشاغل کی وجہ سے تزکیہ نفس اور اصلاح و تربیت میں کوتاہی نہیں کی، الغرض ہرایک شعبہ کا مکمل حق ادا فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے جن حضرات نے بلا واسطہ فیض اٹھایاوہ اس جامعیت میں آپ ﷺ کے وارث بنے، اور ان سے بعد والوں نے ایک ساتھ تعلیم و تربیت میں کمال حاصل کیا، سید سلیمان  ؒ فرماتے ہیں:

            چنانچہ صحابہ اور ان کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین کے تین فرقوں تک یہ دونوں ظاہری و باطنی کام ایک دوسرے کے توام (ملے ہوئے) رہے، جو استاد تھے وہ شیخ تھے، اور جو شیخ تھے وہ استاد تھے، وہ جو مسند درس کو جلوہ دیتے تھے وہ خلوت کے شب زندہ دار اور اپنے ہم نشینوں کے تزکیہ و تصفیہ کے بھی ذمہ دار تھے، ان تینوں طبقوں میں استاد اور شیخ کی تفریق نظر نہیں آتی۔ (مقدمہ’’ مولانا الیاس صاحب اور ان کی دینی دعوت ‘‘)

تقسیم فرائض

            جیسے جیسے دور نبوی سے دوری ہوتی گئی صلاحیتوں میں تنزلی آتی گئی، اور جامعیت ختم ہوتی گئی، دوسری طرف اسلام کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہوگیا، اور دور دور تک اسلام کی شعاعیں پھیلیں، تو ہر شعبہ مستقل محنت کا متقاضی ہوا، اس لئے ایک فرد سے تمام شعبوں کی ذمہ داریوں کو کامل طور پر ادا کرنا مشکل ہوگیا، اس لئے ذمہ داریاں تقسیم ہوگئیں، کسی نے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی (جو کہ احادیث کی شکل میں امت کے پاس موجود تھیں) نشر و اشاعت کی ذمہ داری اٹھالی، بعض افراد رسول اللہ ﷺ کی تربیت و تزکیہ کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے بعد والوں کو اخلاق نبوی سے آراستہ کرنے کی محنت میں مشغول ہوگئے۔

            رفتہ رفتہ تینوں شعبے بالکل الگ ہوگئے، دعوت و تبلیغ ایک مستقل شعبہ بن گیا، اور اس کے لئے کچھ افراد خاص ہوگئے، تعلیم دین مستقل ایک شعبہ ہوگیا اور اس کی خدمت کے لئے بعض افراد خاص ہوگئے،اور اس کے لئے مدارس کا قیام عمل میں آیا، جہاں علوم نبوت کے طالبین نے رخ کیا، تزکیہ کا بھی مستقل ایک شعبہ وجود میں آیا، اور کچھ حضرات اس سے وابستہ ہوگئے، اور خانقاہوں کا قیام عمل میں آیا، جہاں اصلاح نفس کے طالبین نے رخ کیا، اس طریقہ سے امت نے ان تینوں ذمہ داریوں کو اخیر تک نبھائے رکھا۔سید سلیمان صاحب ندویؒ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

            حضور ﷺ کی ذات مبارک میں دو صفتیں يُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ (یعنی آپ لوگوں کو کتاب الہی اور سنت نبوی کی تعلیم دیتے ہیں) وَيُزَكِّيْھِمْ (یعنی آپ لوگوں عملا پاک و صاف بنادیتے ہیںاور ان کے رذائل کو دور کرکے ان کو فضائل سے آراستہ کرتے ہیں) ذات پاک ﷺ میں یہ دونوں صفتیں یکجا تھیں، صحابہؓ میں عموما یہ دونوں صفتیں یکجا رہیں، تابعین میں کچھ کمی رہی، تاہم ان میں بھی کافی یکجائی رہی،، تبع تابعین میں آکر یہ یکجائی ایک محدود حلقہ میں رہ گئی، اس کے بعد یہ یکجائی صرف اشخاص سے ہونے لگی، ورنہ عام طور پر حال یہ ہوگیا کہ يُعَلِّمُھُمُ یعنی زبانی تعلیم کی صفت علماء اور فقہاء نے اختیار کرلی، اور يُزَكِّيْھِمْ یعنی تزکیہ کو صوفیہ نے اپنا کام بنالیا، پہلی چیز مدرسے میں چلی گئی، اور دوسری خانقاہوں میں۔ (مکاتیب سلیمان ۱۶۷)

            یہ تقسیم صرف سہولت اور خدمت کا حق ادا کرنے کے لئے تھی، ان کی اہمیت و ضرورت میں کوئی تقسیم نہیں تھی، سب ایک دوسرے کے کام کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے، اور موقع بہ موقع ایک دوسرے استفادہ بھی کرتے تھے۔

معاشرہ کا فرض

            فرائض رسالت کی ادائیگی میں امت رسول اللہ ﷺ کی نائب ہے، جب افراد سے اس نیابت کا سنبھالنا ،اور جامعیت اور کمال کے ساتھ سارے کام انجام دینا دشوار ہوگیا تو اب یہ صورت باقی رہ گئی کہ سارا معاشرہ مل کر مجموعی طور پر فرائض نبھاتا رہے، پس ایسا جامع معاشرہ تیار کرنا فرض ہے جس میں رسالت کے تمام مقاصد کی تکمیل کا سامان مہیاہو، نبوت کی ذمہ داریاں مجموعی طور پر پوری کی جارہی ہوں، دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تعلم کا سلسلہ بھی جاری ہو، اور اصلاح نفس اور تزکیہ کی کوششیں بھی ہو رہی ہوں، اور ایک مسلمان کو روحانی اور دینی کمال حاصل کرنے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہے وہ موجود ہوں، جب کسی بندے کو ان میں سے کسی چیز کی طلب پیدا ہو تو معاشرہ اس کی طلب پوری کرسکے، اور اس میں اس کی پیاس بجھانے کی صلاحیت ہو، یہی کامل اسلامی معاشرہ ہے، جس طرح مادی ضروریات کی تکمیل کا سارا انتظام ایک انسانی معاشرہ کے لئے لازم ہے، اسی طرح روحانی ضروریات کی تکمیل کا سارا انتظام اسلامی معاشرہ کے لئے لازم ہے، جو معاشرہ نبوت کی ذمہ داریوں میں سے کسی ایک ذمہ داری سے بھی غافل یا قاصر رہا ، اور نبوت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوسکا، وہ دینی نقطۂ نظر کامل معاشرہ نہیں ہے، کوئی علم دین حاصل کرنا چاہے لیکن اس کا کوئی انتظام نہ ہو، یا کوئی شخص اپنی اصلاح اور نفس کا تزکیہ کرنا چاہے لیکن پورا معاشرہ اس پیاس کو بجھانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ کرسکے، تو یہ کوتاہی اور قصور اسلامی معاشرے کے لئے ناقابل برداشت ہے، جس کی تلافی کرنا ضروری ہے، ورنہ پوری سوسائٹی گنہگار ہوگی۔

معاشرہ کی ایک ضرورت

            اسلامی سوسائٹی کو کامل اور جامع بنانے کے لئے جو چیزیں ضروری ہیں ان میں ایک تزکیہ نفس کا شعبہ ہے، اگر دعوت و تبلیغ، وعظ و ارشاد ، تصنیف و تالیف اور تعلیم و تعلم اور فقہ و فتاوی کے سارے کام انجام دیئے جارہے ہوں، تب بھی تزکیہ نفس اور اصلاح قلب کے لئے مستقل محنت کی ضرورت باقی رہے گی، اس کے بغیر سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ معاشرہ رسالت کی نیابت میں کوتاہی کرنے کا مجرم ہوگا، مادی ضروریات میں اگر قیام و طعام اور لباس وغیرہ کا انتظام موجود ہو، لیکن بیماری کے علاج کے لئے کوئی ڈاکٹر یا حکیم میسر نہ ہو، اور کوئی دواخانہ نہ ہو ، اگر کوئی شخص بیمار ہوا تو اس کا علاج کرنے والا کوئی نہ مل سکے، بلکہ صبر و ہمت کی تلقین کے سوا کوئی چارہ نہ ہو، اور کچھ تسلی کے لئے کوئی دوا دے دی جائے ، تو ایسی سوسائٹی کو ہر انسان ناقص اور قابل اصلاح سمجھتا ہے، اور اس کمی کو جلد از جلد دور کرنے کی فکریں کی جاتی ہیں، بالکل اسی طرح روحانی بیماریوں کا شفاخانہ اسلامی معاشرہ کی ایسی ضرورت ہے جس کی کمی کو گوارا نہیں کیا جاسکتا۔

مستقل مقصد ِنبوت

            تزکیہ فرائض رسالت میں سے ایک مستقل مقصد ہے،اسی لئے قرآن کریم نے اس کو علیحدہ طور پر بیا ن کرکے یہ واضح کردیا کہ یہ تعلیم و تبلیغ کا کوئی ضمنی شعبہ نہیں ہےکہ ان کی جد و جہد میں شامل ہوجائے گا، بلکہ یہ ایک مستقل شعبہ ہے جو مستقل محنت و توجہ کا طالب ہے، تعلیم و تبلیغ سے اس کی کفایت نہیں ہوسکتی حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ تحریرفرماتے ہیں:

             تزکیہ کو تعلیم سے جدا کرکے مستقل مقصد رسالت اور رسول کا فرض منصبی قرار دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تعلیم کتنی ہی صحیح ہو محض حاصل نہ کرے کیونکہ تعلیم کا کام درحقیقت سیدھا اور صحیح راستہ دکھلا دینا ہے مگر ظاہر ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے محض راستہ جان لینا تو کافی نہیں جب تک ہمت کر کے قدم نہ اٹھائے اور راستہ نہ چلے اور ہمت کا نسخہ بجز اہل ہمت کی صحبت  اور اطاعت کے اور کچھ نہیں ورنہ سب کچھ جاننے سمجھنے کے بعد بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ ؛

جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

عمل کی ہمت وتوفیق کسی کتاب کے پڑھنے یا سمجھنے سے پیدا نہیں ہوتی اس کی صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اور ان سے ہمت کی تربیت حاصل کرنا اسی کا نام تزکیہ ہے قرآن کریم نے تزکیہ کو مقاصد رسالت میں ایک مستقل مقصد قرار دے کر تعلیمات اسلام کی نمایاں خصوصیت کو بتلایا ہے کیونکہ محض تعلیم اور ظاہری تہذیب تو ہر قوم اور ہر ملت میں کسی نہ کسی صورت سے کامل یا ناقص طریق پر ضروری سمجھی جاتی ہے ہر مذہب وملت اور ہر سوسائٹی میں اس کو انسانی ضروریات میں داخل سمجھا جاتا ہے اس میں اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے صحیح اور مکمل تعلیم پیش کی جو انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر عائلی پھر قبائلی زندگی اور اس سے آگے بڑھ کر سیاسی وملکی زندگی پر حاوی اور بہترین نظام کی حامل ہے جس کی نظیر دوسری اقوام وملل میں نہیں پائی جاتی اس کے ساتھ تزکیہ اخلاق اور باطنی طہارت ایک ایسا کام ہے جس کو عام اقوام اور سوسائٹیوں نے سرے سے نظر انداز کر رکھا ہے انسانی لیاقت واستعداد کا معیار اس کی تعلیمی ڈگریاں سمجھی جاتی ہیں انہی ڈگریوں کے وزن کے ساتھ انسانوں کا وزن گھٹتا بڑھتا ہے اسلام نے تعلیم کے ساتھ تزکیہ کا ضمیمہ لگا کر تعلیم کے اصل مقصد کو پورا کر دکھایا،جو خوش نصیب حضرات رسول اللہ ﷺکے سامنے زیر تعلیم رہے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کا باطنی تزکیہ بھی ہوتا گیا اور جو جماعت صحابہ کرام آپ کی زیر تربیت تیار ہوئی ایک طرف ان کی عقل ودانش اور علم وحکمت کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ساری دنیا کے فلسفے اس کے سامنے گرد ہوگئے تو دوسری طرف ان کے تزکیہ باطنی اور تعلق مع اللہ اور اعتماد علی اللہ کا یہ درجہ تھا جو خود قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

            وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا۔ ( اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں، تم انہیں رکوع سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں )

            یہی وجہ تھی کہ وہ جس طرف چلتے تھے فتح ونصرت ان کے قدم چوم لیتی تھی، تائید ربانی ان کے ساتھ ہوتی تھی، ان کے محیر العقول کارنامے جو آج بھی ہر قوم وملت کے ذہنوں کو مرعوب کئے ہوئے ہیں، وہ اسی تعلیم وتزکیہ کے اعلیٰ نتائج ہیں ۔ (معارف القرآن)

            اور ایک مقام پر لکھتے ہیں: تیسرا فرض آنحضرت ﷺکے فرائض منصبی میں تزکیہ ہے، جس کے معنی ہیں ظاہری وباطنی نجاسات سے پاک کرنا، ظاہری نجاسات سے تو عام مسلمان واقف ہیں، باطنی نجاسات کفر اور شرک غیر اللہ پر اعتماد کلی اور اعتقاد فاسد نیز تکبر وحسد بغض حب دنیا وغیرہ ہیں، اگرچہ علمی طور پر قرآن وسنت کی تعلیم میں ان سب چیزوں کا بیان آگیا ہے، لیکن تزکیہ کو آپ کا جداگانہ فرض قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس طرح محض الفاظ کے سمجھنے سے کوئی فن حاصل نہیں ہوتا اسی طرح نظری وعلمی طور پر فن حاصل ہوجانے سے اس کا استعمال اور کمال حاصل نہیں ہوتا، جب تک کسی مربی کے زیر نظر اس کی مشق کرکے عادت نہ ڈالے، سلوک وتصوف میں کسی شیخ کامل کی تربیت کا یہی مقام ہے کہ قرآن وسنت میں جن احکام کو علمی طور پر بتلایا گیا ہے، انکی عملی طور پر عادت ڈالی جائے۔ (معارف القرآن)

مقاصد میں اہم مقصود

            مقاصد نبوت کا جس آیت میں بیان ہوا ہے اس میں تزکیہ کو مقدم کیا گیا ہے، اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلویؒ تحریر فرماتے ہیں:

            آیت میں تزکیہ کا ذکر مقدم ہے اور تعلیم الکتاب والحکمۃ کا ذکر موخر ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ اصل مقصود تو تزکیہ نفس ہے اور تعلیم الکتاب والحکمہ اس کا وسیلہ ہے اور اگر تعلیم ہو اور تزکیہ حاصل نہ ہو تو تعلیم بےفائدہ ہے ۔ (معارف القرآن ادریسی سورہ بقرہ آیت ۱۵۱)

تزکیہ کی حقیقت

            حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: جس طرح ظاہری اعمال میں سے کچھ اعمال فرض ہیں ، کچھ واجب ہیں ، کچھ حرام ہیں ، اسی طرح انسان کے ساتھ لگے ہوئے جو جذبات اور خواہشات وارادے ہیں ، ان میں سے کچھ فرض وواجب ہیں اور کچھ حرام ہیں ، ان میں سے جو فرض و واجب ہیں ،انسان ان کو برقرار رکھے اور جو گناہ اور حرام ہیں ان سے اپنے دل کو بچالے، اس کا نام ’’تزکیہ ‘‘ہے ۔ (اصلاحی خطبات ۱۵؍۷۹)

            اس کی مزید تفصیل آپ کے ایک وعظ میں اس طرح ہے:

            تزکیہ کے لفظی معنی ہے پاک صاف کرنا، شریعت کی اصطلاح میں تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ جس طرح انسان کے ظاہری اعمال و افعال ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں اللہ تعالی کے اوامر و نواہی ہیں، مثلا یہ کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، زکوۃ دو، حج کرو، وغیرہ، یہ اوامر ہیں، اور جھوٹ نہ بولو، غیبت نہ کرو، شراب نہ پیو، چوری نہ کرو، ڈاکہ نہ ڈالووغیرہ، یہ نواہی ہیں، اور گناہ ہیں، ان سے بچنے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔اسی طرح انسان کے باطن یعنی قلب میں بعض صفتیں مطلوب ہیں، وہ اوامر میں داخل ہیں، ان کو حاصل کرنا واجب ہیں، اور ان کو حاصل کئے بغیر فریضہ ادا نہیں ہوتا، اور بعض صفات ایسی ہیں جن کو چھوڑنا واجب ہے، وہ نواہی میں داخل ہیں، مثلا اللہ تعالی کی نعمت پر شکر کرنا واجب ہے، اگر کوئی ناگوار واقعہ پیش آئے تو اس پر صبر کرنا واجب ہے، اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ رکھنا واجب ہے، تواضع اختیار کرنا یعنی اپنے آپ کو کمتر سمجھنا واجب ہے، اخلاص حاصل کرنا یعنی جو کام بھی آدمی کرے وہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے کرے، اس اخلاص کی تحصیل واجب ہے، اخلاص کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں، لہذا یہ صفات شکر، صبر، توکل، تواضع، اخلاص وغیرہ یہ سب صفات فضائل اور اخلاق فاضلہ کہلاتی ہیں، ان کی تحصیل واجب ہے۔اسی طرح باطن کے اندر بعض بری صفات ہیں، جو حرام اور ناجائز ہیں، جن سے بچنا ضروری ہے، وہ رذائل اور اخلاق رذیلہ کہلاتی ہیں، یعنی یہ صفات کمینی اور گھٹیا صفات ہیں، اگر یہ صفات باطن کے اندر موجود ہوں تو ان کو کچلا اور مٹایا جاتا ہے، تاکہ یہ صفات انسان کو گناہ پر آمادہ نہ کریں، مثلا تکبر کرنا، یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا، حسد کرنا، ریاکاری اور دکھاوا، یعنی انسان اللہ کو راضی کرنے کے بجائے مخلوق کو راضی کرنے کے لئے اور ان کو دکھانے کے لئے کوئی دینی کام کرے، یہ ریا ہے، لہذا تکبر حرام، حسد حرام، بغض حرام، ریاکاری حرام، اور بے صبری یعنی اللہ تعالی کی قضا پر راضی نہ ہونا بلکہ اللہ تعالی کی تقدیر پر شکوہ کرنا حرام ہے، یہ سب رذائل ہیں، جو انسان کے باطن میں موجود ہوتے ہیں، اسی طرح غصہ کو انسان بے محل استعمال کرے تو یہ بھی رذائل میں داخل ہے۔خلاصہ یہ کہ باطن میں بہت سے فضائل ہیں، جن کو حاصل کرنا ضروری ہے، اور بہت سے رذائل ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے، رذائل کو کچلنا اور فضائل کو حاصل کرنااسی کا نام تزکیہ ہے۔ (اصلاحی مجالس ۱؍۳۱)

 فرضیت

            اللہ تعالی نے رسول اکرم ﷺ کو امت کا تزکیہ کرنے کا کام اہم مقصد بناکر سپرد کیا تو دوسری طرف امت کے ذمہ بھی یہ فرض عائد کیا کہ اپنا تزکیہ کرے،اور رسول اللہ ﷺ سے اپنی اصلاح کروائے، اور فلاح و کامیابی کو اس پر موقوف رکھا، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

            قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى۔(یقینا کامیاب ہوگیا وہ شخص جو پاک ہوگیا)

            اس آیت کے ذیل میں حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ : اس آیت میں تصریح ہے کہ مدار فلاح کا تزکیہ نفس پر ہے ۔ (اشرف التفاسیر)

            قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا(یقیناکامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا)

            اس آیت کے ذیل میں بھی حضرت تھانویؒ کا یہ ارشاد ہے: یہ ایک مختصر سی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تزکیہ کو مدار فلاح ٹھہرایا ہے جس سے تزکیہ کی ضرورت ظاہر ہے۔ کیونکہ فلاح کی ضرورت سب کو ہے اور اس کا مدار تزکیہ کو ٹھہرایا گیا ہے ۔ (اشرف التفاسیر)

            تزکیہ ایک جامع لفظ ہے، اس کے ماتحت بہت سارے فروعی احکامات داخل ہیں،  جیسے تکبر، حسد ، حب جاہ ، حب مال اور بغض و کینہ وغیرہ سے بچنا، اور اخلاص ، تواضع ، زہد و توکل وغیرہ ضروری صفات سے خود کو سوارنا، یہ ساری چیزیں مامور بہا ہیں ، قرآن و حدیث میں ان کا حکم دیا گیا ہے، اور ان کو انجام دینے کا نام ہی تزکیہ ہے، جیسا کہ حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کے بیان سے واضح ہوگیا ، دار العلوم دیوبند، دار الافتاء کی ویب سائٹ پر سوال نمبر ۵۵۸۹۱ کے جواب میں لکھا ہے:

            اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ”قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَا‘‘۔یعنی بامراد ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا، تزکیہ کے اصل معنی باطنی پاکی کے ہیں، مراد یہ ہے کہ جس نے اللہ کی اطاعت کرکے اپنے ظاہر وباطن کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوا، اور محروم ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو گناہوں کی دلدل میں دھنسادیا، اسی طرح احادیث میں تکبر حسد وغیرہ کی مذمت آئی ہے اور خود آنحضرت ﷺکی بعثت کے مقاصد میں تزکیہ نفس کا ذکر قرآنِ مجید میں مذکور ہے اسی وجہ سے فقہاء نے بھی اس کو فرض لکھا ہے۔

            حضرت شاہ وصی اللہ صاحبؒ (خلیفہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی) نے اپنی کتاب’’ تصوف اور نسبت صوفیہ‘‘ میں علامہ شامی، قاضی ثناء اللہ پانی پتی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت تھانوی ؒ وغیرہ اکابر سے تزکیہ و احسان کی فرضیت نقل کی ہے۔

تزکیہ کے بغیر کمال نہیں

            جب تزکیہ نفس فرض ہے، تو ظاہر بات ہے کہ فرض کو چھوڑ کر کوئی مسلمان دینی کمال حاصل نہیں کرسکتا، پس تزکیہ نفس سے غفلت کرنے والا کامل مسلمان نہیں ہوسکتا، کوئی شخص دین کے دیگر احکامات کا پابند ہے، اور دینی خدمات میں بھی لگا ہوا ہو، دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تعلم میں بھی حصہ لیتا ہے، لیکن تزکیہ نفس کی کوئی فکر نہیں ہے ، تو مکمل اسلام پر عمل کرنے والا اور مومن کامل نہیں ہوگا، اور کمال ایمان پر اللہ تعالی کے جو وعدے ہیں وہ اس کو حاصل نہیں ہوںگے، بلکہ ادھورے دین پر عمل کرنے والا شمار ہوگا، اور گنہگار ہوگا، باقی اعمال کے ثواب سے محروم تو نہیں رہے گا، لیکن وہ اعمال تزکیہ کی طرف سے کافی نہیں ہوں گے۔

            حقیقت یہ ہے کہ جب دل بجھا ہوا اور بے نور ہو تو اولاً اعمال میں کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، اور اگر ظاہری اعمال کر بھی لئے تو بسا اوقات دل کی بیماریاں ان کی مقبولیت میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، ان بیماریوں کی وجہ سے بڑے بڑے اعمال بھی قبول نہیں ہوتے،بلکہ عذاب کا سبب بن جاتے ہیں، مشہور حدیث ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے عالم ، سخی اور مجاہد کو جہنم میں ڈالا جائے گا، ان کے اعمال تو درست تھے، لیکن دل میں کھوٹ تھی، اور بعض مرتبہ اعمال قبول بھی ہوجاتے ہیں لیکن وہ باقی نہیں رہتے، ان کا ثواب ایذا رسانی اور حقوق کی پامالی کی وجہ سے دوسروں کو پہنچ جاتا ہے، ان تمام گھاٹیوں سے انسان اسی وقت پار ہوسکتا ہے جب دل کا تزکیہ ہوجائے ، اور اس میں صلاح پیدا ہوجائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

            اَلا واِنّ في الجسدِ مُضْغةً: اذَا صلحتْ صَلحَ الجسَدُ كلُّه، وَاِذا فسَدتْ فَسدَ الجَسدُ كلّه، اَلا وَهي القلبُ ۔ (بخاری، مسلم) (سنو! بلا شبہ بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوتا ہے تو سارا بدن درست ہوتا ہے، اور جب وہ بگڑتا ہے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے، سنو وہ دل ہے)۔

فضائل

            تزکیہ نفس اور اصلاح نفس کی منزل سے جو شخص پار ہوجاتا ہے، وہ کامل مسلمان اور اللہ کا محبوب و مقرب بندہ بن جاتا ہے، رضائے الہی کی فکر کے علاوہ دونوں جہاں کے ہموم و غموم سے نجات پالیتا ہے، دنیا دار الامتحان ہے، اس میں مصائب اور حالات کا نشیب و فراز تو لازمی ہے، لیکن اللہ تعالی سے دوستی کا شرف اس کو حاصل ہوتا ہے، جس کی برکت سے دنیا کے حالات میں بھی وہ پریشان نہیں ہوتا، بلکہ اس کو ایک طرح کی لذت محسوس ہوتی ہے، قرآن و حدیث میں کمال ایمان پر اور تقوی اور صفت احسان پرجتنے بھی فضائل وارد ہوئے ہیں وہ ان کا مستحق بنتا ہے، دربار الہی میں اس کا ایک مقام بنتا ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:

            اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات)  (درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو)

            واضح رہے کہ تزکیہ ، تقوی اور احسان سب کا ایک ہی مفہوم ہوتا ہے، جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے، حضرت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ تقوی اور تزکیہ دونوں مرادف ہیں (اشرف التفاسیر ۴؍۳۰۵) مندرجہ ذیل آیتوں میں ملاحظہ فرمائیں کہ تزکیہ اور تقوی پر دنیا و آخرت کی ساری کامیابیوں اور بشارتوں کا وعدہ ہے:

            ﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ يُسْرًا﴾  (الطلاق) (اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کردے گا۔

            ﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يُكَفِّرْ عَنْہُ سَـيِّاٰتِہٖ وَيُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا﴾ (اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور اس کو زبردست ثواب دے گا)

            ﴿وَمَنْ يَّـتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّيَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾ (اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا)

            اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ  لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللہِ  ذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۔ (یونس۶۴) ’’یا درکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں ہوں، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے۔  ان کے لیے خوشخبری ہے دنیوی زندگی میں بھی ور آخرت میں بھی، اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، یہی زبردست کامیابی ہے‘‘۔

            اور بھی بہت ساری نصوص ہیں، لیکن مختصر رسالے میں اس کی گنجائش نہیں، رغبت کرنے والوں کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ اللہ کا دوست اور محبوب بن جائے۔

طریقۂ تحصیل

            اللہ تعالی کی رحمت اور دین اسلام کا کمال دیکھئے کہ جہاں اس نے تزکیہ اور تقوی کا حکم فرمایا وہیں اس کو حاصل کرنے کا آسان راستہ بھی دکھا دیا، چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

             يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ﴿التوبة: ١١٩﴾

              ’’اے ایمان والوں ! اللہ سے ڈرو، اور سچوں کےساتھ رہو‘‘۔

            علامہ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے: خالطوھم لتکونوا مثلھم۔ یعنی تم ان سے مل جاؤ ، ان کے ساتھ ہی رہ پڑو، تاکہ تم بھی ان کے مثل ہوجاؤ۔

            حضرت تھانویؒ فرماتے ہیںکہ اس آیت میں عام مسلمانوں کو تقوی کے لئے ہدایت فرمائی گئی ہے، اور كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ  میں اس طرف اشارہ فرمایاگیا ہے کہ صفت تقوی حاصل ہونے کا طریقہ صالحین اور صادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے، (بصائر حکیم الامت ص۱۴۶)

            حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم بیان فرماتے ہیں:

            اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام بھی عجیب و غریب ہے، کلام اللہ کے عجیب و غریب اعجازات ہیں ، ایک جملہ کے اندر باری تعالیٰ جتنا کچھ انسان کے کرنے کا کام ہو تا ہے وہ بھی سارے کا سارا بتا دیتے ہیں، اور پھر اس پر عمل کرنے کا جو طریقہ ہے اور اس کا جو آسان راستہ ہے وہ بھی اپنی رحمت سے اپنے بندوں کو بتا دیتے ہیں کہ ویسے کرنا تمہارے لیے مشکل ہوگا ہم تمہیں اس کا راستہ بتائے دیتے ہیں ۔ فرمایا کہ اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ اختیار کرو تو اب اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی، تقویٰ میں سبھی کچھ آ گیا، لیکن سوال پیدا ہوا کہ تقویٰ کیسے اختیار کریں ؟ تقویٰ تو بڑا اونچا مقام ہے، اس کے لیے بڑے تقاضے ہیں ، بڑی شرائط ہیں ، وہ کیسے اختیار کریں ، کہاں سے اختیار کریں ؟ اس کا جواب اگلے جملے میں باری تعالیٰ نے دیا کہ ویسے تقویٰ اختیار کرنا تمہارے لیے مشکل ہوگا لیکن آسان راستہ تمہیں بتائے دیتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ سچے لوگوں کے ساتھی بن جائو صادقین کے ساتھی بن جائو۔ سچے کے معنی صرف یہی نہیں کہ وہ سچ بولتے ہوں اور جھوٹ نہ بولتے ہوں ، بلکہ سچے کے معنی یہ ہیں کہ جو زبان کے سچے، جو بات کے سچے، جو معاملات کے سچے، جومعاشرت کے سچے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اپنے کئے ہو ئے معاہدہ میں سچے ہیں ، اس کے ساتھی بن جائو اور ان کی صحبت اختیار کرو، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کرو، جب اٹھنا بیٹھنا شروع کرو گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے تقویٰ کی جھلک تمہارے اندر بھی پیدا فرما دیں گے۔ یہ ہے تقویٰ حاصل کرنے کا طریقہ اور اسی طریقہ سے دین منتقل ہوتا چلا آیا ہے، نبی کریم سرکار دو عالم ﷺ کے وقت سے لے کر آج تک جو دین آیا ہے، وہ سچے لوگوں کی صحبت سے آیا ہے، صادقین کی صحبت سے آیا۔ (اصلاحی خطبات ۱۴؍۱۰۷)

            معلوم ہوا کہ تزکیہ کے لئے اور صفت تقوی حاصل کرنے کے لئے متقین کی صحبت و معیت اختیار کرنا چاہئے، اس کی برکت سے انسان کے لئے مکمل دین پر چلنا، تقوی اختیار کرنا، اور اپنی اصلاح کرنا آسان ہوجاتا ہے، واقعی اللہ کی صحبت میں مقاطیس کی کشش، کیمیا کی تاثیر، بارش کی سی حیات، پھولوں جیسی مہک، رسیلے میووں کی سی لذت، شراب طہور جیسی فرحت ، نسیم سحر کے جھونکوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے،لالہ و گل نہر کے کنارے شاداب اور تر وتازہ رہتے ہیں۔

صحبت اہل صفانور و حضور و سرور

سرخوش و پرسوز ہے لالہ لب آبجو

 لیکن اس کا تعلق دید و شنید سے نہیں ، بلکہ ذوق و وجدان سے ہے، اس کی افادیت کو اور اس سے ملنے والی دولت کو الفاظ میں قید کرنا ناممکن ہے، تاہم کہنے سننے سے کچھ نہ کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اور دل میں شوق پیدا ہوسکتا ہے، اس لئے صحبت صالح کے موضوع پر کچھ اہم باتیں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اللہ ہمیں سمجھادیں، اور اس پر عمل کرنا آسان فرمائیں۔

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے