مجلس اور ملاقات کی اہمیت
کسی سے ملاقات کرنے اور ملنے کا انداز اور مجلس اور میٹنگوں میں اٹھنے بیٹھنے کا انداز آپ کو لوگوں میں محبوب اور پر کشش بھی بنا سکتا ہے، اور لوگوں میں ناپسند اور ذلیل بھی بنا سکتا ہے، کسی بھی شخصیت کی ویلیو گھٹانے یا بڑھانے میں اس کا بہت بڑا رول ہوتا ہے، ملاقات اور مجلسوں کی اچھی مہارتیں (skills) پیدا کرنے سے شخصیت میں کشش پیدا ہوتی ہے، لوگ اس کے پاس بیٹھنا پسند کرتے ہیں ، لوگ اس کی طرف بے اختیار کھینچے چلے جاتے ہیں۔
اس مضمون میں دنیا کی سب سے محبوب ترین ، دنیا کی سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین اداؤں والی شخصیت کی مجلس اور میٹنگوں کی خصوصیات بیان کریں گے،
نبی اکرم ﷺ کی مجلس کی کیفیت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس حلم و علم حیا و صبر اور متانت و سکون کی مجلس ہوتی تھی۔ اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں۔
اور کسی کی حرمت پر کوئی داغ نہ لگایا جاتا تھا اور کسی کی غلطیوں کی تشہیر نہ کی جاتی تھی۔
آپ ﷺ کے اہل مجلس ایک دوسرے کی طرف تقوی کے سبب متواضعانہ طور پر مائل ہوتے تھے اس میں بڑوں کی توقیر کرتے تھے اور چھوٹوں پر مہربانی کرتے تھے صاحب حاجت کی اعانت کرتے تھے اور بے وطن پر رحم کرتے تھے۔ (نشر الطیب)
حضرت زید بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم ﷺ کا ہمسایہ تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بلا بھیجتے میں حاضر ہوکر اس کو لکھ لیتا تھا (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ حددرجہ دلداری اور بے تکلفی فرماتے تھے) جس قسم کا ذکر تذکرہ ہم لوگ کرتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی قسم کا تذکرہ فرماتے (یعنی ہمارے ساتھ دنیا کی باتوں میں شریک ہوتے) اور جس وقت ہم آخرت کی طرف متوجہ ہوتے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آخرت کے تذکرے فرماتے یعنی جب آخرت کا کوئی تذکرہ شروع ہو جاتا تو اسی کے حالات و تفصیلات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے اور جب کھانے پینے کا کچھ ذکر ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ویسا ہی تذکرہ فرماتے کھانے کے آداب وہ فوائد لذیذ کھانوں کا ذکر مضر کھانوں کا تذکرہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے حالات کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ (خصائل نبوی ﷺ)
آپ مجلس میں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما ہوتے تو آپ نے زانوئے مبارک کو ہم جلیسوں سے آگے نہیں بڑھنے دیتے کہ امتیاز پیدا نہ ہوجائے۔ (زاد المعاد)
اگر کوئی شخص کھڑے کھڑے کسی بات کے متعلق سوال کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ناپسند فرماتے اور تعجب سے اسکی طرف دیکھتے۔
اگر کسی مسئلہ کے بیان میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم مصروف ہوتے اور قبل اس کے کہ سلسلہ بیان ختم ہو کوئی شخص دوسرا سوال پیش کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سلسلہ تقریر کو بدستور جاری رکھتے۔ معلوم ہوتا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ہی نہیں۔ جب گفتگو ختم کرلیتے تو سائل سے اس کا سوال معلوم کرتے اور اسکا جواب دیتے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں ہوتے تو درمیان میں تشریف رکھتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد حلقے پر حلقہ لگائے بیٹھے ہوتے اور آپ ﷺ بوقت گفتگو کبھی ادھر رخ کرکے تخاطب فرماتے اور کبھی ادھر۔ گویا حلقہ میں سے ہر شخص بوقت گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھ لیتا۔
آپ ﷺ جب مجلس میں بیٹھتے تو دونوں پاؤں کھڑے کرکے ان کے گرد ہاتھوں کا حلقہ بنا کر بیٹھتے اور ویسے بھی آپ کی نشست اسی ہیئت سے ہوا کرتی تھی اور یہ سادگی اور تواضع کی صورت ہے بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم چارزانو بھی بیٹھے ہیں اور بعض اوقات بغل میں ہاتھ دے کر اکڑو بھی بیٹھے ہیں۔ (زاد المعاد)
حضور نبی کریم ﷺ کا بیٹھنا اور اٹھنا سب ذکر اللہ کے ساتھ ہوتا اور اپنے لیے کوئی جگہ بیٹھنے کی ایسی معین نہ فرماتے کے خوامخواہ سی جگہ بیٹھیں اور اگر کوئی بیٹھ جائے تو اسکو اٹھا دیں اور دوسروں کو بھی جگہ معین کرنے سے منع فرماتے تھے۔ اور جب کسی مجمع میں تشریف لے جاتے تو جس جگہ مجلس ختم ہوتی وہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی یہی حکم فرماتے اور اپنے تمام جلیسوں میں سے ہر شخص کو اس کا حصہ اپنے خطاب و توجہ سے دیتے۔ یعنی سب سے جدا جدا متوجہ ہو کر خطاب فرماتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر جلیس یوں سمجھتاکہ مجھ سے زیادہ آپ کو کسی کی خاطر عزیز نہیں۔ جو شخص کسی ضرورت کے لئے آپ کو لے کر بیٹھ جاتا یا کھڑا رہتا تو جب تک وہی شخص نہ اٹھ جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ مقید رہتے۔ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ حاجت چاہتا تو بغیر اس کے کہ اس کو حاجت پوری فرماتے یا نرمی سے جواب دیتے اس کو واپس نہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کشادہ روئی اور خوش خوئی تمام مسلمانوں کیلئے عام تھی کیوں نہ ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے روحانی باپ تھے۔ اور تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حق میں فی نفسہٖ مساوی تھے البتہ تقوی کی وجہ سے متفاوت تھے یعنی تقوی کی زیادتی سے تو ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے تھے اور دیگر امور میں سب باہم مساوی تھے اور حق میں سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک برابر تھے۔ (روایات از حسن ابن علی رضی اللہ عنہ)
اہل مجلس کے ساتھ سلوک
رسول اللہ ﷺ ہمہ وقت کشادہ رو رہتے نرم اخلاق تھے آسانی سے موافق ہوجاتے تھے نا سخت خو تھے نہ درشت گو تھے نہ چلاکر بولتے اور نہ نامناسب بات فرماتے جو بات (یعنی خواہش) کسی شخص کی آپکی طبیعت کے خلاف ہوتی تو اس سے تغافل فرما جاتے (یعنی اس پر گرفت نہ فرماتے) اور (تصریحا) اس سے باز پرس بھی نہ فرماتے بلکہ خاموش ہوجاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں سے اپنے کو بچا رکھا تھا۔ 1۔ ریا سے اور 2۔ کثرت کلام سے اور 3۔ بےسود بات سے۔ اور تین چیزوں سے دوسرے آدمیوں کو بچا رکھا تھا۔ 1۔ کسی کی مذمت نہ فرماتے 2۔ کسی کو عار نہ دلاتے اور 3۔ نہ کسی کا عیب تلاش کرتے۔ آپ ﷺ وہی کلام فرماتے جس میں امید ثواب کی ہوتی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلام فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام جلیس اس طرح سر جھکا کر بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے آکر بیٹھ گئے ہوں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساکت ہوتے تب وہ بولتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی بات پر نزاع نہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو شخص بولتا اس کے فارغ ہونے تک سب خاموش رہتے۔ (یعنی بات کے بیچ میں کوئی نہ بولتا)۔ اہل مجلس میں ہر شخص کی بات رغبت کے ساتھ سنے جانے میں ایسی ہوتی جیسے سب سے پہلے شخص کی بات تھی۔ (یعنی کسی کے کلام کی بے قدری نہ کی جاتی)۔ جذبات سے سب ہنستے آپ بھی ہنستے۔ جس سے سب تعجب کرتے آپ بھی تجب فرماتے۔ یعنی حد اباحت تک اپنے جلیسوں کے ساتھ شریک رہتے۔ پردیسی آدمی کی بے تمیزی کی گفتگو پر تحمل فرماتے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ جب کسی صاحب حاجت کو طلب حاجت میں دیکھو تو اس کی اعانت کرو۔ جب کوئی آپ کی ثنا کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جائز نہں رکھتے۔ البتہ اگر کوئی احسان کی مکافات کے طور پر کرتا تو خیر (بوجہ مشروع ہونے کے اس ثناء کو بشرط عدم تجاوز حد کے گوارا فرمالیتے) اور کسی کی بات کو نہ کاٹتے ہیں یہاں تک کہ وہ حد سے بڑھنے لگتا اس وقت اس کو ختم کرا دینے سے یا اٹھ کر کھڑے ہوجانے سے منقطع فرما دیتے۔ (نشر الطیب)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان کو لایعنی باتوں سے محفوظ رکھتے تھے۔ لوگوں کی تالیف قلب فرماتے تھے اور ان میں تفریق نہ ہونے دیتے تھے۔ اور ہر قوم کے آبرودار آدمی کی عزت کرتے تھے اور ایسے آدمی کو اس قوم پر سردار مقرر فرماتے دیتے تھے۔ لوگوں کو نقصان دینے والی باتوں سے بچنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے اور ان کے شر سے اپنا بھی بچاؤ رکھتے تھے مگر کسی شخص سے کشادہ روئی اور خوش خوئی میں کمی نہ فرماتے تھے۔ اپنے ملنے والوں کے بارے میں استفسار فرماتے تھے اور لوگوں میں جو واقعات ہوتے تھے آپ وہ پوچھتے رہتے (تاکہ مظلوم کی نصرت اور مفسدوں کا انسداد ہو سکے) اور اچھی بات کی تحسین اور تصویب اور بری بات کی تقبیح اور تحقیر فرماتے۔ (نشر الطیب)

0 Comments