رواۃ کی عدل وضبط کے اعتبار سے تحقیق
گذشتہ قسط میں مراتب جرح و تعدیل کی تعداد کے سلسلے میں کچھ باتیں تحریر کی گئی
اب مراتب تعدیل ،مراتب تعدیل کے کلمات اور ان مراتب تعدیل پر مرتب ہونے والے احکام کو بیان کیا جاتا ہے
(۱) پہلا مرتبہ
جو سب سےاعلی ہے وہ یہ ہے جس میں راوی کی ثقاہت بذریعہ اسم تفضیل,صیغہ مبالغہ یا ان کے مشابہ اور ہم معنی کلمات کے ذریعہ بیان کی جائے جیسے
- أوثق الناس
- أحد الأحدین
- إلیه المنتھی فی التثبت
- أثبت الناس
- لاأعرف له نظیرا
- فلان لایسئل عنه
- أمیر المؤمنین فی الحدیث وغیرہ ۔
(۲) دوسرا مرتبہ
یہ ہے کہ راوی کی ثقاہت کی تاکید تکرار لفظی یا معنوی سے کی گئی ہو، جیسے
- ثقة،ثقة
- ثقة،ثبت
- ثبت،حجة
- ثقة،حافظ
- ثقة،مامون
- وغیرہ ۔
اس بنیاد پر جس کی ثقاہت بیان کرنے میں مزید تکرار ہوتی ہے، وہ اس درجہ میں سب سے اعلی ہوگا۔
جیسے ابن سعد کا امام شعبہ کے بارے میں کہنا : ثقة، مامون، ثبت، حجة ، كثیر الحدیث ۔
اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تکرار جو منقول ہے وہ نو بار کی تکرار ہے، جو سفیان بن عیینہ کے قول عمروبن دینار کے بارے میں ہے، جب انہوں نے لفظ ثقہ کی تکرار نو مرتبہ کی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ کہتے کہتے وہاں پر سانس ٹوٹ گیا۔ (فتح المغیث: ۱؍ ۳۹۲)
(۳) تیسرا مرتبہ
یہ ہے جس میں راوی کی ثقاہت بغیر تاکید کے بیان کی گئی ہو، جیسے
- ثقة
- ثبت
- حجة
- متقن
- حافظ
- ضابط
- امام
- عادل
- وغیرہ
(٤) چوتھا مرتبہ
یہ ہے کہ جس میں راوی کی عدالت واضح ہو لیکن ضبط غیر واضح ہو جیسے
- صدوق
- مامون
- لاباس به
- لیس به باس
- محله الصدق
- خیار
- وغیرہ۔
(٥) پانچواں مرتبہ
جس میں راوی کی عدالت اورضبط کو واضح طور سے بیان نہ کیا گیا، جیسے
- شیخ وسط
- جید الحدیث
- حسن الحدیث
- مقارب الحدیث
- صالح الحدیث
- إلی الصدق ما ھو
- رووا عنه
- وغیرہ۔
نیز جن لوگوں پر کسی قسم کی بدعت یا اختلاط وغیرہ کا الزام ہے، ان کو بھی اس کے ساتھ لاحق کردیا گیا ہے، جیسے
صدوق رمی بالتشیع، صدوق سیٔ الحفظ، صدوق تغیر ، صدوق یھم ۔
(٦) چھٹا مرتبہ
یہ ہے جس میں راوی پر حکم لگانے میں ناقد کے تردد وشبہ کا پتہ چلے اور اس کی دلالت عدالت کے بہ نسبت جرح سے زیادہ قریب ہو جیسے
- صویلح
- یکتب حدیثه
- صدوق إن شاء الله
- مقبول
- أرجو أن لابأس به
- وغیرہ
اصحاب مراتب تعدیل کا حکم
ان مراتب میں پہلے تین مراتب والوں کی روایتیں عدالت اور ضبط کی بنیاد پر قابل قبول اور قابل حجت ہوتی ہے، اگرچہ قوت میں بعض بعض سے قوی ہوتی ہیں،
چوتھے مرتبہ والوں کے سلسلہ میں قدرے اختلاف ہے لیکن راجح یہ ہے کہ یہ قابل احتجاج ہوتے ہیں اور ان کی روایتیں درجہ حسن کو پہنچتی ہیں.
پانچویں مرتبہ والوں کی روایتیں مطلق قابل احتجاج تو نہیں ہوتی ہیں البتہ قابل اعتبار ہوتی ہیں لیکن ان کی روایتیں اگر ثقات کے موافق ہوں تو قابل احتجاج ہوجاتی ہیں۔
چھٹے مرتبہ والوں کی بھی روایت قابل قبول نہیں ہوتی بلکہ قابل اعتبار ہوتی ہے لیکن مرتبہ میں کم ہوتی ہے اگر اس کی کوئی روایت شاہد ہے تو حسن لغیرہ ہوگی ورنہ ضعیف ہوگی لیکن ضعف خفیف ہوگا۔
حضرت مولانا محمد ادریس گودھروی

0 Comments