حل سند کے لئے ضروری امور میں سے نواں امر
پہلے یہ بات ذکر کی گئی تھی کہ رواۃ کی عدل وضبط کے اعتبار سے تحقیق کے لئے چار امور سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے
- (١)کتب اسمائے رجال
- (٢)الفاظ جرح و تعدیل اور ان کی مراد
- (٣)مراتب جرح و تعدیل
- (٤) قواعد جرح و تعدیل
ان مذکورۂ بالا چاروں امور پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ،ان چار چیزوں سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد طالب علم اس پوزیشن میں آجاتا ہے کہ کتب اسمائے رجال کی مدد سے وہ راوی کی عدل وضبط کے اعتبار سے تحقیق کرسکتا ہے
راوی کی عدل وضبط کے اعتبار سے تحقیق کے لئے اس کے ترجمہ وحالات کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور جرح وتعدیل کے اعتبار سے علماء کے اقوال کا جائزہ لیا جائے
اگر وہ راوی ایسا ہے کہ جس کی توثیق یا تضعیف پر تمام علماء متفق ہیں تو معاملہ آسان ہوگا.
اگر توثیق پر اتفاق ہے تو اسے ثقہ قرار دیا جائے گا اور اسی کے مطابق سند پر حکم لگایا جائے گا
اگر تضعیف پر اتفاق ہے تو اسے ضعیف قراردیاجائے گا اور سند پر ضعف کا حکم لگایا جائے گا۔
اگر جرح وتعدیل کے اعتبار سے علماء کے اقوال مختلف ہیں تو پھر ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ راوی صحاح ستہ اور صحاح ستہ کےمؤلفین کی دیگر کتابوں کا ہے تو حافظ ابن حجر کی کتاب تقریب التہذیب امام ذهبی کی الکاشف اور امام خزرجی کی الخلاصة کی مراجعت کی جائے اور وہیں سے راوی کے متعلق مذکور نتیجہ نقل کرلیا جائے۔
اس لیے کہ حافظ صاحب، امام ذهبی اور امام خزرجی نےاپنی ان کتابوں میں ائمۂ جرح وتعدیل کے اقوال کا خلاصہ نقل کردیا ہے۔
اگر وہ راوی مسند امام ابوحنیفہ، مسند شافعی، مسند احمد اور مؤطا امام مالک کا ہو تو تعجیل المنفعة کی مراجعت کی جائے اس لیے کہ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی اس کتاب میں اکثر رواۃکے متعلق ثقاہت وضعف کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی نتیجہ ذکر کردیا ہے.
لیکن وہ راوی اگر صحاح ستہ ، صحاح ستہ کے مؤلفین کی دیگر کتابوں اور ائمہ اربعہ کی کتابوں (مسند امام ابوحنیفہ، مسند شافعی، مسند احمد اور مؤطا امام مالک) کے علاوہ کسی اور کتاب کا ہو تو پھر باحث کو چاہیے کہ وہ حافظ ابن حجرؒ کے اس طرز کا غائرانہ مطالعہ کرے جو انہوں نے مختلف فیہ راویوں کے متعلق نتیجہ نکالنے کےلیے اختیار کیا ہے۔ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مطلوب راوی کے متعلق نتیجہ نکال کر وہ راوی جس مرتبہ کا مستحق ہے اس کے مناسب اس کا درجہ متعین کردے ۔
(تخریج الحدیث اضافہ کے ساتھ)
نوٹ : حافظ ابن حجرؒ کی کتاب ”تقریب التہذیب“ سے خلاصہ نقل کرنے کی بات ان لوگوں کے نزدیک ہے جو حافظ صاحب کے نکالے ہوئے خلاصہ پر اعتماد کرلینے کے قائل ہیں ورنہ بعض لوگوں کے نزدیک مختلف فیہ راوی کے متعلق حافظ صاحب کا خلاصہ معتبر نہیں ہے
ایسی صورت میں یا راوی کے تقریب التہذیب اور تعجیل المنفعة کے نہ ہونے کی صورت میں تعارض جرح وتعدیل سے متعلق جو بحث ذکر کی گئی ہے اس کا بغائر مطالعہ کیا جائے اور راوی کے حالات کے لیے ان کتابوں کی مراجعت کی جائے جن کا ذکر كتب اسماء الرجال میں کیا گیا ہے۔
▪️اگر تطبیق کی کوئی شکل نکلتی ہو تو اس کے مطابق حکم لگایا جائے ورنہ جرح مبہم ، جرح مفسر، اسباب جرح کے مقبول وغیر مقبول اور ائمۂ جرح وتعدیل کے مزاج (تشدد، تساہل اور اعتدال) سےمتعلق جوباتیں ذکر کی گئی ہیں اس کے مطابق راوی کے متعلق کوئی نتیجہ نکال کر مناسب حکم لگادے۔
🔹 راوی کے ترجمہ کا مطالعہ کرتے وقت جرح وتعدیل کے عام الفاظ وکلمات، مخصوص کلمات، نادر کلمات، حرکات، ائمۂ جرح وتعدیل کی توثیق وتضعیف کے سلسلہ کی خاص اصطلاحات وغیرہ کو ذہن میں رکھے، اسی طرح راوی کے خاص شیوخ سے نقل کرنے میں ، خاص شہر والوں سے نقل کرنے میں اور خاص اوقات (جیسے اختلاط کے بعد) میں کی گئی تضعیف کو بھی ملحوظ خاطر رکھے (ان سب باتوں کی وضاحت ماقبل میں ہوچکی ہے۔
طالب علم کو چاہیے کہ ان سب امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے راوی کے متعلق آخری فیصلہ صادر کرے۔
مختلف فیہ راویوں کے بارے میں صحیح نتیجہ پر پہنچنے کا طریقہ
اب مختلف فیہ راویوں کےبارے میں درست نتیجہ پر کیسے پہنچا جاسکتا ہے، اسے دومثالوں کےذریعہ واضح کیا جاتا ہے۔
(۱) مسلم بن خالد الزنجی
مسلم بن خالد کی تعدیل سے متعلق اقوال
قال ابن عدی حسن الحدیث وأرجو أنه لابأس به
وقال ابن معین ثقة وزاد فی روایة، صالح الحدیث
وحکی ابن القطان عن الدارقطنی أنه قال ثقة
وذکرہ ابن حبان فی الثقات
مسلم بن خالد کی تجریح سے متعلق اقوال
قال الإمام احمد :مسلم بن خالد کذا وکذا
وقال ابن المدینی : لیس بشیٔ
وقال البخاری :منکر الحدیث، یکتب حدیثه ولا یحتج به، یعرف وینکر
وقال ابن سعد :کان کثیرا الغلط فی حدیثه
وقال ابن حبان : یخطیٔ أحیانا
وقال عثمان الدارمی :یقال أنه لیس بذاک فی الحدیث
وقال الساجی : صدوق کان کثیرا الغلط
وقال یعقوب بن سفیان : کان یطلب ویسمع ولایکتب فلما احتیج إلیه وحدث کان یأخذ سماعه الذی غاب عنه یعنی فضعف
ونسبه ابن البرقی إلی الضعف ممن یکتب حدیثه
وذکر له ابن معین عدۃ أحادیث أنکرت علیه
اقوال کےدرمیان ترجیح
ائمۂ جرح وتعدیل کے سابقہ اقوال کی روشنی میں مندرجۂ ذیل خلاصہ نکالا جاسکتا ہے۔
- (۱) مسلم بن خالد کے بارے میں جو کلام کیا گیا ہے وہ ان کے حافظہ پر کیا گیا ہے۔
- (۲) بعض جرحیں مبہم ہیں جیسے لیس بشئ وغیرہ اور بعض جرحیں مفسر ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر کی گئی ہیں۔
- (۳) مسلم بن خالد کے ضعیف ہونے کی علت کثرت غلط اور ان کا اپنے حافظہ سے نقل کرنا اور اپنی مرویات کے لکھنے کا اہتمام نہ کرنا ہے، اور یہی چیز عام طور پر راوی کو روایت کرنے میں خطا اور وہم تک لے جاتی ہے۔
- (٤) ابن معین نے مسلم بن خالد کی توثیق کی ہے، اس سے مراد عدالت ہے، اسی وجہ سے ثقہ کے بعد صالح الحدیث کہا ہے۔ اس لیے کہ ابن معین کسی راوی کے متعلق ثقہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے عدالت مراد لیتے ہیں۔
صالح الحدیث کا اضافہ اسی لیےکیاتاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ابن معین نے مسلم بن خالد کو ضابط بھی قراردیا ہے۔
صالح الحدیث یہ صدوق سےکم درجہ پر دلالت کرتا ہے صدوقکی روایت حسن درجہ کی ہوتی ہے اور صالح الحدیث کی حدیث قابل استدلال نہیں ہوتی بلکہ اعتبار کے لائق ہوتی ہے یعنی اگر ثقات اس کی روایت کی موافقت کریں تو وہ حدیث صحیح ہوگی ورنہ منکراور مردود ہوگی یعنی متابعات وشواہد کے طور پر پیش کی جاسکے گی۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ابن معین نے مسلم بن خالد پر یہ حکم لگایا ہے پھر بھی ان کی احادیث کو روایت کیا ہے۔
جہاں تک دارقطنی کی توثیق کی بات ہے تو دارقطنی توثیق میں متساہل واقع ہوئے ہیں،
اسی طرح ابن حبان اور ابن عدی متساہل ہیں، مگر ابن حبان ان لوگوں میں کچھ زیادہ متساہل ہیں، پھر جرح مفسر کے مقابلہ میں تعدیل مبہم کا کوئی اعتبار بھی نہ ہوگا۔
خلاصۂ کلام
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں مسلم بن خالد حافظہ کی وجہ سے ضعیف ہیں ان کی احادیث قابل اعتبار ہیں، قابل حجت واستدلال نہیں ہے۔ واللہ اعلم
(تیسیر علوم الحدیث ص: ۱۹۳,١٩٤)
نوٹ
اس قسط کے ارسال کئے جانے کے بعد شیخ طلحہ مدظلہ العالی کی جانب سے یہ پیغام موصول ہوا
مسلم بن خالد کی بحث کا خلاصہ بس ٹھیک ہے ، صاحب تیسیر (تیسیر علوم الحدیث شیخ عمرو سلیم حفظہ اللہ )نے اچھی طرح اقوال جمع نہیں کئے ، ابن معین کے متعدد اقوال ہیں ، دارقطنی کو متساہل کہہ دیا ، جب کہ انہوں نے مطلق توثیق نہیں کی ہے ، ابن عدی معتدل ہیں متساہل نہیں ۔
اس پیغام کے مطابق مسلم بن خالد کی مثال میں حتی الوسع تصحیح کرنے کے بعد دوبارہ اس مثال کو مزید ایک مثال کے ساتھ ارسال کیا جارہا ہے ۔
مختلف فیہ راویوں کے بارے میں صحیح نتیجہ پر پہنچنے کا طریقہ
(۱) مسلم بن خالد الزنجی
مسلم بن خالد کی تعدیل سے متعلق اقوال
قال أبو أحمد بن عدي الجرجاني : حسن الحديث وأرجو أنه لا بأس به
قال أبو القاسم بن بشكوال : ليس به بأس
قال أبو حاتم بن حبان البستي : ذكره في الثقات وقال: من فقهاء أهل الحجاز يخطئ أحيانا
قال الدارقطني : ثقة إلا أنه سيئ الحفظ
قال الذهبي : ساق له عدة أحاديث، وقال: هذه ترد بها قوة الرجل، ويضعف، وقال في التذهيب: أحد الأئمة
قال زكريا بن يحيى الساجي : صدوق، كان كثير الغلط، وكان يري القدر، وقد روى عنه ما ينفي القدر
قال يحيى بن معين : ثقة،
وقال مرة: لا بأس به،
وقال مرة: ضعيف،
وفي رواية عباس: ثقة وهو صالح الحديث
جرح سے متعلق اقوال
أبو جعفر العقيلي : ضعيف
قال أبو حاتم الرازي : ليس بذاك القوي، منكر الحديث، يكتب حديثه ولا يحتج به تعرف وتنكر
قال أبو داؤد السجستاني : ضعيف
أحمد بن حنبل : حرك يده ولينه
قال أحمد بن شعيب النسائي : ليس بالقوي،
ومرة: قال: ضعيف
قال ابن حجر العسقلاني : فقيه صدوق كثير الأوهام
قال عثمان بن سعيد الدارمي : يقال: أنه ليس بذاك في الحديث
قال علي بن المديني : كان عندنا ضعيفا، ليس بالقوي، ومرة: ليس بشيء،
ومرة: منكر الحديث
قال محمد بن إسماعيل البخاري” : منكر الحديث،
ومرة: قال: ذاهب الحديث،
ومرة: منكر الحديث ليس بشئ
قال محمد بن سعد كاتب الواقدي : كثير الحديث، كثير الغلط والخطأ في حديثه
قال محمد بن عبد الله بن البرقي : نسب إلي الضعف ممن يكتب حديثه
محمد بن عبد الله بن نمير : ضعفه
مصنفوا تحرير تقريب التهذيب : ضعيف يعتبر به في المتابعات والشواهد
قال يعقوب بن سفيان الفسوي : ضعيف الحديث
ائمۂ جرح وتعدیل کے سابقہ اقوال کی روشنی میں مندرجۂ ذیل خلاصہ نکالا جاسکتا ہے۔
- (۱) مسلم بن خالد کے بارے میں جو کلام کیا گیا ہے وہ ان کے حافظہ پر کیا گیا ہے۔
- (۲) بعض جرحیں مبہم ہیں جیسے لیس بشئ وغیرہ اور بعض جرحیں مفسر ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر کی گئی ہیں۔
- (۳) مسلم بن خالد کے ضعیف ہونے کی علت کثرت غلط اور ان کا اپنے حافظہ سے نقل کرنا اور اپنی مرویات کے لکھنے کا اہتمام نہ کرنا ہے، اور یہی چیز عام طور پر راوی کو روایت کرنے میں خطا اور وہم تک لے جاتی ہے۔
- (٤) ابن معین نے مسلم بن خالد کی توثیق کی ہے، اس سے مراد عدالت ہے، اسی وجہ سے ثقہ کے بعد صالح الحدیث کہا ہے۔ اس لیے کہ ابن معین کسی راوی کے متعلق ثقہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے عدالت مراد لیتے ہیں۔
صالح الحدیث کا اضافہ اسی لیےکیا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ابن معین نے مسلم بن خالد کو ضابط بھی قراردیا ہے۔
ایک قول ابن معین کا تضعیف کا بھی ہے ۔
صالح الحدیث یہ صدوق سےکم درجہ پر دلالت کرتا ہے صدوق کی روایت حسن درجہ کی ہوتی ہے اور صالح الحدیث کی حدیث قابل استدلال نہیں ہوتی بلکہ اعتبار کے لائق ہوتی ہے یعنی اگر ثقات اس کی روایت کی موافقت کریں تو وہ حدیث صحیح ہوگی ورنہ منکراور مردود ہوگی یعنی متابعات وشواہد کے طور پرپیش کی جاسکے گی۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ ابن معین نے مسلم بن خالد پر یہ حکم لگایا ہے پھر بھی ان کی احادیث کو روایت کیا ہے۔
دارقطنی اور ابن عدی نے توثیق کی ہے، دونوں معتدل ہیں ۔دار قطنی بعض جگہ متساہل شمار کئے جاتے ہیں ۔
ابوداؤد ،احمد بن حنبل اور نسائی نے تضعیف کی ہے
ابوداؤد اور احمد بن حنبل معتدل ہیں جب کہ نسائی متشدد ہیں
اسی طرح ابن حبان متساہل ہیں،
لیکن جن حضرات نے تعدیل کی ہے وہ تعدیل مبہم ہے اور جرح مفسر کے مقابلہ میں تعدیل مبہم کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
خلاصۂ کلام
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں مسلم بن خالد حافظہ کی وجہ سے ضعیف ہیں ان کی احادیث قابل اعتبار ہیں، قابل حجت واستدلال نہیں ہے۔ واللہ اعلم
(۲) سعید بن جمہان
سعید بن جمہان کی تعدیل سے متعلق اقوال
قال ابن معین : ثقة
وقال أبوداؤد : ثقة
وفی موضع آخر وھو ثقة إن شاء اللہ
وقوم یضعفون إنما یخاف ممن فوقه
وقال ابن عدی : روی أحادیث عن سفینة لایرویھا غیرہ وأرجو أنه لابأس به فإن حدیثه أقل من ذلک
وقال النسائی : لیس به بأس
وقال أحمد بن حنبل : ثقة،
ومرة: اعترض على كلام ابن المديني فيه
قلت یروی عن یحیی بن سعید انہ سئل عنه (عن سعید) فلم یرضه
فقال باطل ۔ وغضب وقال ما قال ھذا أحد غیر علی بن المدینی ، ماسمعت یحیی یتکلم فیہ بشئ
قال يعقوب بن سفيان الفسوي : ثقة
وذکرہ ابن حبان فی الثقات
قال الذهبي : صدوق وسط
قال ابن حجر العسقلاني : صدوق له أفراد
مصنفوا تحرير تقريب التهذيب : ثقة
سعید بن جمہان کی تجریح سے متعلق اقوال
قال البخاری فی حدیثه عجائب
وقال أبوحاتم یکتب حدیثه ولایحتج به
وقال الساجی لایتابع علی حدیثه
اقوال کے درمیان ترجیح
ائمۂ جرح وتعدیل کے سابقہ اقوال کی روشنی میں مندرجۂ ذیل باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
(۱) امام نسائی (جن کا شمار متشددین میں ہوتا ہے) نے سعید بن جمہان کی توثیق کی ہے، لہذا ان کی توثیق قابل اعتبار ہوگی۔
(۲) امام احمد بن حنبل اور ان کے شاگرد امام ابوداؤد نے بھی سعید کی توثیق کی ہےاور ان دونوں کا شمار ائمۂ معتدلین میں ہوتا ہے۔
(۳) امام احمد کے سامنے سعید کی جرح سے متعلق یحیی بن سعید سے مروی قول ذکر کیا گیا تو امام احمد نے شدت سے اس کی تردید کردی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام احمد کےنزدیک سعید کے بارے میں جرح ثابت نہیں ہے۔
امام ابوداؤد کا طرز بھی اسی بات کی غمازی کرتا ہے، اس لیے کہ انہوں نے توثیق نقل کرنے کے بعد لکھا کہ ایک قوم سعید کی تضعیف کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوداؤد کے نزدیک بھی جرح ثابت نہیں ہے۔
(٤) جہاں تک ابوحاتم کی جرح کی بات ہے تو ان کا شمار متشددین میں ہوتا ہے، سعید کےبارے میں ان کی جرح ائمۂ معتدلین کی ایک جماعت سے متعارض ہورہی ہے، اس لیے تعدیل کو مقدم کیا جائے گا، تعدیل کو مقدم کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جرح مبہم ہے مفسر نہیں ہے۔
(۵) جہاں تک امام بخاری کے اس قول فی حدیثه عجائب کی بات ہے تو یہ لفظ کسی بھی حال میں جرح پر دلالت نہیں کرتا ہے، بلکہ یہ لفظ جرح سے کم درجہ کا ہے، پھر امام بخاری نےسعید کا ذکر اپنی کتاب ”کتاب الضعفاء “میں نہیں کیا ہے ،
اسی طرح امام بخاری نے ”التاریخ الکبیر“ میں بھی سعید پر کوئی جرح نہیں کی ہے۔
(٦) جہاں تک ساجی کے اس قول ”لایتابع علی حدیثه“ کی بات ہے تو یہ بات بالکل درست ہے کہ سعید کی مرویات کی کسی نے متابعت نہیں کی ہے اور وہ سفینہ کی روایتوں کے روایت کرنے میں متفرد ہیں، لیکن یہ کوئی قابل جرح سبب نہیں ہے،
امام احمد بن حنبل نے سعید عن سفینہ کے طریق سے منقول حدیث کی تصحیح کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعید کا حدیث کی روایت میں متفرد ہونا مقبول ہے۔
تہذیب الکمال میں مذکور ہے کہ حشرج بن نباتہ سے روایت ہے کہ میں نے سعید بن جمہان سے دریافت کیا کہ سفینہ سے آپ کی ملاقات کہاں ہوئی؟ سعید نےکہا کہ حجاج کے زمانہ میں مقام بطن نخلہ میں میری سفینہ سے ملاقات ہوئی اور میں ان کے ساتھ آٹھ دن تک رہا اور ان سےاللہ کے رسول ﷺ کی احادیث سنا کرتا تھا۔
اس وجہ سے وہ سفینہ سے روایت کرنے میں متفرد ہیں،کوئی دوسرا ان روایتوں کو سفینہ سےنقل نہیں کرتا ہے، اس وجہ سے روایتوں میں یہ تفرد قابل جرح نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام
ماقبل کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سعید بن جمہان کے بارے میں جو کلام کیا گیا ہے، وہ ان کے سفینہ سے روایت کرنے میں متفرد ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے، لیکن جب ان کے سفینہ سے روایت کرنے میں متفرد ہونے کی معقول وجہ موجود ہے تو اس طرح کی جرح قابل اعتبار نہ ہوگی۔
اسی وجہ سے امام احمد نے سعید کی بعض منفرد روایتوں کی تصحیح کی ہےاور ان لوگوں پر اعتراض کیا ہےجنہوں نے سعید کی تلیین کی ہے،
ان باتوں کی وجہ سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ سعید ان شاء اللہ تعالٰی ثقہ ہیں۔
(تیسیر علوم الحدیث ص ۲۰۲، ۲۰۳ اضافہ کے ساتھ )
مذکورہ بالا طریقے کےمطابق مختلف فیہ راویوں کے بارے میں خلاصہ نکال کر اس کی روشنی میں راوی پر حکم لگانا چاہیے۔

0 Comments